ذوالقرنین
لائبریرین
صفحہ 260
یعلم جنود ربک الاہو " پھر زمین کے گرد ارگرد 45 میل کے دل کا ہوا کا کرہ ہے اور اس میں بھی جان داروں کی ایسی ہی یا اس سے زیادہ کثرت ہے۔ ہر چند کارخانہ قدرت الہٰی کی عظمت اور شان فہم بشر سے خارج ہے مگر جس طریق پر میں نے اجمالاً بیان کیا اگر کوئی آدمی متواتر اور متصل مدتوں تک غور کرتا رہے تو ضرور اس کے دل میں اپنی بے حقیقتی اور درماندگی اور بے وقعتی کا تیقن پیدا ہوگا، جس کو میں دین داری کی بنیاد یا تمہید سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ذہن کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ اتنا بڑا کارخانہ بایں عظمت کیسی عمدگی اور کیسے انضباط کے ساتھ چل رہا ہے کہ عقل دنگ ہوتی ہے! اجرام فلکی کے اتنے بڑے بے شمار گولے کہ خدا کی پناہ اور خود زمین سب چکر میں ہیں، خدا جانے کب سے اور کیوں اور کب تک؟ اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں اور نہ بال برابر اپنی رفتار بدلتے ہیں۔ اب جو آدمیوں کو قاعدہ معلوم ہو گیا ہے تو سینکڑوں ہزاروں برس پہلے سے پیشن گوئی ہو سکتی ہے کہ فلاں ستارہ فلاں وقت فلاں مقام پر ہوگا اور وہیں ہوتا ہے۔ حساب میں اگر غلطی نہ ہو تو منٹ اور سیکنڈ کیسا، سیکنڈ کے ہزارویں حصے کی قدر بھی آگاہ پیچھا نہیں ہوسکتا۔ " والشمس تجری لمستقرلہا ذالک تقدیر العزیز العلیم ۔ والقمر قدرناہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم ۔ لا الشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر و لا الیل سابق النہار و کل فی فلک یسبحون۔"
یہاں روئے زمین زمین پر ایک بھنگے، ایک دانے، ایک پھل، ایک پنکھڑی، گھاس کے ایک ڈنٹھل، چھوٹی سی چھوٹی اور ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کو بھی نظر غور سے دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کی کچھ نہ کچھ غرض و غایت ہے جس کی تکمیل کا پورا پورا سامان اس چیز میں موجود ہے۔ مثلاً ریگستانی علاقوں میں اونٹ پیدا کیا گیا ہے تو اس کے پاؤں کے تلوے چوڑے اور اسفنج کی طرح پولے ہیں کہ ریت میں نہ دھنسیں۔ اس کی گردن بہت لمبی ہے تاکہ اونچے درختوں کے پتے چر سکے۔ اس کو ایک خاص طرح کا خانہ دار معدہ دیا گیا ہے جس میں کئی کئی ہفتوں کے لیے کھانا پانی بھر لیتا ہے کیوں کہ جیسے ملک میں وہ پیدا کیا گیا ہے وہاں کئی کئی دن متواتر تک پانی چارے کا نہ ملنا کچھ تعجب نہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوہان کا گودام ہے اگر اس کو ایک عرصہ خاص تک کھانا
صفحہ 261
پینا کچھ نہ ملے تو کوہان کی چربی "بدل ما یتحلل" کا کام دے۔ ہرن وغیرہ جنگلی جانوروں کی ٹانگیں پتلی پتلی ہیں تاکہ شکاری جانوروں سے بچنے کے لیے پھرتی کے ساتھ بھاگ سکیں۔ ہاتھی کے ایک سونڈ لٹک رہی ہے جس سے وہ ہاتھ کا کام لیتا ہے۔ پرندوں کےجثے سبک ہیں تاکہ ہوا میں اڑ سکیں۔ دریائی جانوروں کے پنجے کھال سے جڑے ہوئے ہیں، گویا کہ ہر ایک کے پاس قدرتی چپو ہیں۔ گوشت خور جانوروں کے پنجے اور دانت ان کی غذا کے مناسب ہیں۔ نباتات میں پھل پھول کی حفاظت کے واسطے کانٹے ہیں، پوست ہیں، خول ہیں۔ سرد ملک کے جانوروں کی اون بڑی بڑی اور گھنی ہے کہ جاڑا نہ کھائیں۔ جتنے جاندار معرض تلف میں ہیں ان میں تولد تناسل کی کثرت ہے تاکہ نسل معدوم نہ ہو، مثلاً ایک ایک مچھلی لاکھ لاکھ سے زیادہ انڈے دیتی ہے۔ آدمی چونکہ ابتدائے حیات کا سامان عقل کی مدد سے بہم پہنچا سکتا ہے، سینگ اور پنجے اور اون، اس قسم کے قدرتی سامان اس کو نہیں دیے گئے۔ جس ملک میں نباتات کی کثرت ہے وہیں برسات بھی زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ وہ ملک پانی کا محتاج ہے۔
انسان اگر اپنی ہی بناوٹ میں غور کرے تو اس کا ایک ایک رواں صانع قدرت کی کمال دانش مندی اور عنایت پر گواہی دے رہا ہے :
ہر ہر بن مو کہ می نہم گوش
فوارہ فیض اوست در جوش
اس کے جسم میں ایک چھوٹا اور آسان سا پرزہ ہاتھ ہے کہ دنیا میں جس قدر انسان کے تصرفات ہیں اور انسان کی بساط پر خیال کرو تو ان تصرفات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، سب اسی پرزے کے ہیں۔ اہل یورپ نے عقل کے زور سے بڑی بڑی عمدہ کلیں بنائی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کلوں سے عقل انسانی کی قوت بڑی شد و مد کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے مگر مجھ کو بھی دو چار کلوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، ایک بکھیڑا ہے کہ بیگھوں زمیں پر پھیلا ہے، سینکڑوں پرزے، ہزار ہا پیچ، بیلن، پہیے، چرخیاں، کمانیاں، خدا جانے دنیا بھر کے کیا کیا سامان جمع کیے ہیں تب جاکر وہ ایک مطلب حاصل ہوتا ہے جس کے لیے کل بنائی گئی ہے۔ یہ آدمی کی بنائی ہوئی کلوں کا حال ہے اور ایک ادنیٰ سی کل خدا کی بنائی ہوئی ہے، یہی آدمی کا ہاتھ کہ ہزار ہا قسم کے کام اس سے نکلتے ہیں، اور