اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 260​
یعلم جنود ربک الاہو " پھر زمین کے گرد ارگرد 45 میل کے دل کا ہوا کا کرہ ہے اور اس میں بھی جان داروں کی ایسی ہی یا اس سے زیادہ کثرت ہے۔ ہر چند کارخانہ قدرت الہٰی کی عظمت اور شان فہم بشر سے خارج ہے مگر جس طریق پر میں نے اجمالاً بیان کیا اگر کوئی آدمی متواتر اور متصل مدتوں تک غور کرتا رہے تو ضرور اس کے دل میں اپنی بے حقیقتی اور درماندگی اور بے وقعتی کا تیقن پیدا ہوگا، جس کو میں دین داری کی بنیاد یا تمہید سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ذہن کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ اتنا بڑا کارخانہ بایں عظمت کیسی عمدگی اور کیسے انضباط کے ساتھ چل رہا ہے کہ عقل دنگ ہوتی ہے! اجرام فلکی کے اتنے بڑے بے شمار گولے کہ خدا کی پناہ اور خود زمین سب چکر میں ہیں، خدا جانے کب سے اور کیوں اور کب تک؟ اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں اور نہ بال برابر اپنی رفتار بدلتے ہیں۔ اب جو آدمیوں کو قاعدہ معلوم ہو گیا ہے تو سینکڑوں ہزاروں برس پہلے سے پیشن گوئی ہو سکتی ہے کہ فلاں ستارہ فلاں وقت فلاں مقام پر ہوگا اور وہیں ہوتا ہے۔ حساب میں اگر غلطی نہ ہو تو منٹ اور سیکنڈ کیسا، سیکنڈ کے ہزارویں حصے کی قدر بھی آگاہ پیچھا نہیں ہوسکتا۔ " والشمس تجری لمستقرلہا ذالک تقدیر العزیز العلیم ۔ والقمر قدرناہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم ۔ لا الشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر و لا الیل سابق النہار و کل فی فلک یسبحون۔"​
یہاں روئے زمین زمین پر ایک بھنگے، ایک دانے، ایک پھل، ایک پنکھڑی، گھاس کے ایک ڈنٹھل، چھوٹی سی چھوٹی اور ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کو بھی نظر غور سے دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کی کچھ نہ کچھ غرض و غایت ہے جس کی تکمیل کا پورا پورا سامان اس چیز میں موجود ہے۔ مثلاً ریگستانی علاقوں میں اونٹ پیدا کیا گیا ہے تو اس کے پاؤں کے تلوے چوڑے اور اسفنج کی طرح پولے ہیں کہ ریت میں نہ دھنسیں۔ اس کی گردن بہت لمبی ہے تاکہ اونچے درختوں کے پتے چر سکے۔ اس کو ایک خاص طرح کا خانہ دار معدہ دیا گیا ہے جس میں کئی کئی ہفتوں کے لیے کھانا پانی بھر لیتا ہے کیوں کہ جیسے ملک میں وہ پیدا کیا گیا ہے وہاں کئی کئی دن متواتر تک پانی چارے کا نہ ملنا کچھ تعجب نہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوہان کا گودام ہے اگر اس کو ایک عرصہ خاص تک کھانا​
صفحہ 261​
پینا کچھ نہ ملے تو کوہان کی چربی "بدل ما یتحلل" کا کام دے۔ ہرن وغیرہ جنگلی جانوروں کی ٹانگیں پتلی پتلی ہیں تاکہ شکاری جانوروں سے بچنے کے لیے پھرتی کے ساتھ بھاگ سکیں۔ ہاتھی کے ایک سونڈ لٹک رہی ہے جس سے وہ ہاتھ کا کام لیتا ہے۔ پرندوں کےجثے سبک ہیں تاکہ ہوا میں اڑ سکیں۔ دریائی جانوروں کے پنجے کھال سے جڑے ہوئے ہیں، گویا کہ ہر ایک کے پاس قدرتی چپو ہیں۔ گوشت خور جانوروں کے پنجے اور دانت ان کی غذا کے مناسب ہیں۔ نباتات میں پھل پھول کی حفاظت کے واسطے کانٹے ہیں، پوست ہیں، خول ہیں۔ سرد ملک کے جانوروں کی اون بڑی بڑی اور گھنی ہے کہ جاڑا نہ کھائیں۔ جتنے جاندار معرض تلف میں ہیں ان میں تولد تناسل کی کثرت ہے تاکہ نسل معدوم نہ ہو، مثلاً ایک ایک مچھلی لاکھ لاکھ سے زیادہ انڈے دیتی ہے۔ آدمی چونکہ ابتدائے حیات کا سامان عقل کی مدد سے بہم پہنچا سکتا ہے، سینگ اور پنجے اور اون، اس قسم کے قدرتی سامان اس کو نہیں دیے گئے۔ جس ملک میں نباتات کی کثرت ہے وہیں برسات بھی زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ وہ ملک پانی کا محتاج ہے۔​
انسان اگر اپنی ہی بناوٹ میں غور کرے تو اس کا ایک ایک رواں صانع قدرت کی کمال دانش مندی اور عنایت پر گواہی دے رہا ہے :​
ہر ہر بن مو کہ می نہم گوش​
فوارہ فیض اوست در جوش​
اس کے جسم میں ایک چھوٹا اور آسان سا پرزہ ہاتھ ہے کہ دنیا میں جس قدر انسان کے تصرفات ہیں اور انسان کی بساط پر خیال کرو تو ان تصرفات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، سب اسی پرزے کے ہیں۔ اہل یورپ نے عقل کے زور سے بڑی بڑی عمدہ کلیں بنائی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کلوں سے عقل انسانی کی قوت بڑی شد و مد کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے مگر مجھ کو بھی دو چار کلوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، ایک بکھیڑا ہے کہ بیگھوں زمیں پر پھیلا ہے، سینکڑوں پرزے، ہزار ہا پیچ، بیلن، پہیے، چرخیاں، کمانیاں، خدا جانے دنیا بھر کے کیا کیا سامان جمع کیے ہیں تب جاکر وہ ایک مطلب حاصل ہوتا ہے جس کے لیے کل بنائی گئی ہے۔ یہ آدمی کی بنائی ہوئی کلوں کا حال ہے اور ایک ادنیٰ سی کل خدا کی بنائی ہوئی ہے، یہی آدمی کا ہاتھ کہ ہزار ہا قسم کے کام اس سے نکلتے ہیں، اور​
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 262
ترکیب دیکھو تو ایسی سلیس اور مختصر کہ ایک کفِ دست ہے اور تین تین جوڑ کی پانچ انگلیاں' اللہ اللہ خیر صلاح۔
انسان کے بدن میں ایک اور ذرے بھر کی چیز آنکھ ہے۔ اس کی ساخت میں جو اندرونی حکمتیں ہیں ' ان سے بالا ستیعاب ایک کتاب بن سکتی ہے۔ مگر خارج کی احتیاطوں کو دیکھ وکہ پہلے گویا ہڈیوں کا کا واک ہے جس میں نگینے کی طرح آنکھ تعبیہ ہے کی ہوئی ہے' اوپر بھوئوں کا چھجے دار سایابان' سامنے پپوٹوں کا پردہ' پردے میں پلکوں کا جھالر' پھر پپوٹون کے اندر منافذ ہیں جن میں سے آئینہ چشم کے صاف رکھنے کو ہمیشہ ایک خاص طرح کی رطوبت رستی رہتی ہے۔ یہ وہی رطوبت ہے جو زیادہ ہوکر آنسو بن جاتی ہے۔ جتنی دفعہ انسان پلک جھپکتا ہے گویا اتنی ہی دفعہ آئینے پر پچارا پھرتا ہے۔گرد دھوئیں اور کنک کی صورت میں بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں' جس کے یہ معنی ہیں کہ پچارا کافی نہیں بلکہ آئینے دھونے کی ضرورت ہے۔ "فَنبارک اللہ احسن الخالقین " میرا تو کیا منہ کہ موجوداتِ عالم میں جو اسرار حکمت مضمر ہیں' ان کا ایک شمہ بھی بیان کرسکوں۔"ولو ان مافی الارض من شجرتہ اقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعتہ ابحرما نفدت کلمات اللہ ان اللہ عزیزُ حکیم! مگر میری غرض اسی قدر ہے کہ دنیا کے کاترکانے کو اس نظر سے دیکھنا چاہیئے۔
کل میں نے آیت اللہ(ابن الوقت کے چھوٹے بھتیجے کا نام ہے) کا سبق سنا۔ وہ" عجائبِ قدرت" پڑھتا ہے۔ کسی شخص نے نیچرل فلاسفی میں سے بعض بعض مضامین چھانٹ چھانٹ کر اردو میں ترجمے کردئے ہیں۔ اسی میں لکھا تھا کہ مچھر کے منہ کے آگے جو ایک چھوٹی سونڈ سی ہوتی ہے' وہ حقیقت میں ایک نلوا ہے۔اس نلوے میں تین اوزار'ایک توسوئی' جس کو مچھر مسام میں داخل کرتا ہے' ایک آری کہ اگر مسام کو چوڑا کرنا ہو تو اس سے کام لے اور ایک سینگی جس کی راہ خون چوستا ہے۔ اس میں اتنی بات اور بھی تھیکہ اس کی شکل خاص میں مچھر کی حیات کی مدت صترف تین دن کی ہے، ایک مقام پر تھا کہ تیتری کے ایک پر میں کھپروں کی طرح تیس ہزار دیولیاں ہیں۔ اس طرح کی باتوں کو اگر کوئی انسان سرسری طور پر نہ سنے' جیسے کی اس کی عادت ہے' تو ہر ہر ذترہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس کو کسی بڑی قدرت
صفحہ 263
والے 'دانش مند' ہمدان'' حاضر' ناظر'' سمیع و بصیر کسی مصلحت سے جان بوجھ آ بنایا ہے۔ ممکن نہیں کہ انسان صمیم قلب کے سے موجودات عالم میں غور و غوض کرے اور اس کا دل اندر سے نہ بولنے لگے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ بہ ایں عمدگی و انضباط خود بخود یا اتفاقیہ طور پر تو نہیں ہوگیا' کیوں کہ واقعاتِ اتفاقی کی شان ہی دوسری ہوتی ہے' ان میں قاعدے کا کہاں پتا اور انضباط کا کیا مذکور۔ اور قاعدہ اور انضباط بھی کیسا کہ دنیا کی اابتداء سے لے کر آج کی گھڑی تک تو ان میں رتی برابر تو فرق پڑا نہیں" فلن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا ولن لسنتہ اللہ تحویلا"۔
جس غور کی طرف میں تم کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ وقت کیا چیز ہے' جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔اگرچہ وقت کی وسعت کا اندازہ بھی فہم بشر سے خارج ہے مگر خیر'جہاں تک تم سے اجرامِ فلکی کے فاصلوں کی طرح اندازہ کرتے بن پڑے' لاکھ دو لاکھ' چار لاکھ برس کا ایک محدود وسعت لے کر اُسی وُسعت کو سوچو اور تمثیلاََ یوں تصور کرو کہ وقت ایک لمبا خط ہے' اس میں سے تمھاری ہستی اگرچہ تمہارے معتقدات کے مطابق طب انگریزی پر پورا عمل کرنے سے حد طبعی سے بھی کتنی متجاوز کیوں نہ ہوجائے' تاہم اُس کو وقتِ مفروض کے ساتھ کیا نسبت ہوگی؟ شاید جیسی محیط زمین کے مقابلے میں ایک انچ کو یا اس سے بھی کم۔ یہ تو انسان کی ہستی ہےاور اس پر خدا سے انکار اور اپنی عقل پر ناز بے جا انسان سے دنیا میں ہزار ہا طرح کی بیہودگی پر فوق لے گئی ہے کہ خدا کا ہی منکر ہو۔ بڑے افسوس کی بات ہے اور پرلے درجے کی بد قسمتی کہ عقل جو انسان کو اس غرض دی گئی ہے کہ مخلوقات سے خالق کو پہنچانے' ورنہ دنیا کی چند روزہ زندگی تو جانور بھی بسر کرلیتے ہیں جن کو بہت سا کھانا اور پانی درکار ہوتا ہے' اور مزہ یہ ہے کہ حاجتیں کثیر اور عقل کم اور پھر انسان سے کہیں زیادہ خوشحال حال"تعذو خعاصاََ و تروح بطانا" غرض بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہی عقل انسان کو ایسا گمراہ کرے کہ خدا قائل نہ ہونے دے۔ حقیقت میہں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی آدمی کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ خدا نہیں۔ تم مجھ کو اتنا تو سمجھائو کہ تم نے اپنے تئیں سمجھا ہے کیا؟ چندیں ہزار کے مقابلے میں تمہاری کیا حقیقت ہے اور چندیں ہزار عالم بھی نہ سہی' ان کی مخلوقات بھی نہ سہی'
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 266 اور 267)

حجتہ الاسلام : اول تو شاعروں کے مقولات ، معاملات مذہبی میں قابل استشہار نہیں اور پھر آپ اس کو اپنے مطلب پر بھی خوب ڈھال لے گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس راز کی جستجو کو حافظ منع کرتا ہے ، وہ وہ اسرار ہیں جن کو خدا نے آدمی سے مخفی رکھنا چاہا ہے مثلاََ "ان اللہ عندہ علم الساعتہ الغیث و یعلم ما فی الارحام و ما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر۔" یا مثلاََ وہی بات جس میں تم کو شک واقع ہو اور ابھی تھوڑی دیر ہوئی اس کی نسبت تم نے کہا کہ اگر دنیا میں اونچ نیچ ، خوشی اور رنج یعنی اختلاف حالات ، امر تقدیری ہے خدا کو دانش مند اور منصف اور رحیم ماننا مشکل یا جیسے کوئی انسان خلقِ عالم کی غرض و غایت کی تفشیش کرنا چاہے کہ روح کیا چیز ہے اور جسم سے کس طرح کا تعلق رکھتی ہے یا علت و معلول میں کیا علاقہ ہے؟ اس قسم کی ہزاروں باتیں ہیں کہ اس ہستی میں انسان پر منکشف ہونے والی نہیں۔ ان چیزوں کی جستجو انسان کو کرنی ضرور نہیں بلکہ جو کچھ ہورہا ہے نظر اتحسان سے دیکھ خاموش ہورہے اور کسی بات کو نہ سمجھ سکے تو اعتراض نہ کرے بلکہ قصور فہم کا معترف ہو۔ علاوہ بریں تم کا البتہ اختیار ہے کہ اس قسم کے خیالات کو دل میں جگہ نہ دو لیکن اس کی ایسی مثال ہوگی کہ نصف النہار کے وقت آفتاب بڑی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور چمگادڑ اس کو نہیں دیکھنا چاہتی ، نہ دیکھے مگر آفتاب کا اس میں کیا زیاں ہے؟

گر نہ بیند بہ روز شپرہ چشم​
چشمہ آفتاب را چہ گناہ​

چمگادڑ کا یہیں تک بس چل سکتا ہے کہ نہ دیکھے ، نہ یہ کہ دوسروں کو نہ دیکھنے دے یا آفتاب کو تیرہ و تار کردے یا اس کو اس کے معمول کے مطابق نہ نکلنے دے۔ لیکن ایک دن پرسش ہونی ہے کہ آنکھیں تھیں ، کیوں نہیں دیکھا؟ کان تھے کس لیے نہیں سنا؟ عقل تھی کس واسطے نہیں سمجھا؟

ابن الوقت : ابھی ایک بحث طے نہیں ہوئی کہ آپ نے قیامت اور اس کی باز خواست کی دوسری بات نکال کھڑی کی۔
حجتہ الاسلام : بحث مت کہو۔ میں تو مذہب کے بارے میں مناظرے اور مباحثے کا سخت مخالف ہوں اور میں نے شروع ہی میں تم سے کہہ دیا تھا کہ دین حجت اور تکرار سے حاصل ہونے والی چیز نہیں۔ دین دوا ہے بیمار کی ، تسلی ہے بے قرار کی ، متاع ہے خریدار کی ، بشارت ہے امیدوار کی ، نجات ہے گنہگار کی ، یعنی عنایت ہے پروردیگا کی۔ جو کچھ میں نے تم سے کہا ، ہرگز از راہ بحث نہیں کہا بلکہ بہ تقاضائے محبّت تم کو اپنی سمجھ کے مطابق ایک تدبیر بتائی کہ اگر اپنے دل میں صدقِ نیت کے ساتھ غور کرو تو عجب نہیں خلجان باقی نہ رہے اور قیامت اور باخواست قیامت کی بات کے نکالنے کی جو تم نے کہی تو یہ تمام زحمتیں اسی دن کے لیے ہیں۔ اگر قیامت اور قیامت کی بازخواست نہ ہوتی تو کیوں دین ڈھونڈتے اور کس لیے مذہت کی تلاش کرتے؟ بڑی مشکل تو یہی ہے کہ مرنے سے بھی آدمی کا پنڈ نہیں چھوٹتا۔ یہ زندگی دنیا تو چند روزہ ہے ، بھلی طرح بھی گزر جائے گی اور بری طرح بھی گزر جائے گی۔ پہاڑ زندگی تو وہ ہے جو مرنے سے شروع ہوگی گویا از سر نو پیدا ہوئے اور جس کی اصلاح ، دین کا مقصودِ اصلی ہے۔

ابن الوقت : خدا کے ہونے پر تو بھلا آپ نے ایک دلیل قائم کی بھی۔ ہر چند میرے دل کو اس سے تسلی نہیں ہوئی اور میں اس وقت تک یہی سمجھتا ہوں کہ لوگ ہورہے ہیں اسباب کے خوگر ، جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں سبب ہی سبب نظر آ رہے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے ذہن میں تعمیم کر لی ہے کہ ہر واقعے کے لیے سبب کا ہونا ضرور ہے اور سبب نہیں پاتے تو جھٹ سے خدا کے قائل ہوجاتے ہیں۔ مگر میں سننا چاہتا ہوں کہ قیامت اور بازخواست قیامت کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟
حجتہ الاسلام : میں نہیں جانتا کہ خدا کے لیے تم کس طرح کا ثبوت چاہتے ہو۔ اگر یہ مطلب ہے کہ آنکھ سے دیکھوں یا ہاتھ سے ٹٹولوں تو میں کیا کوئی بھی دعویٰ نہیں کر
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بھائی Zeeshan Haider

2.gif
صفحہ نمبر 264 اور 265
ایک روئے زمیں پر ابتدا سے اب تک تم جیسے اور تم سے بہتر اور ، کرو رہا آدمی پیدا ہوئے اور اپنی زندگی میں انھوں نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ خدا کے ایسے ایسے بھی بہت سے بے شمار بندے ہوئے ہیں جنھوں نے حکومتیں کیں، سلطمنیتں کیں، اپنے زمانے میں نامی نامور ہوئے اور پھر ایسے مٹے کہ گویا پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ نہ ان کا نام ہے نہ نشان ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ تم کوئی انوکھے آدمی ہو؟ تم بھی اپنے ارادے سے پیدا نہیں ہوئے، اور قسم ہے اس ذات پاک کی کہ جس کے ہاتھ میں میری اور تمہاری دونو کی اور سب جانداروں کی جان ہے، اپنے ارادے سے زندہ بھی نہیں ہو اور اپنے ارادے سے مرو گے بھی نہیں ، اور مرے بعد مہنے دو مہنے پیچھے نہ سہی پچاس سو دو سو ہزار برس بعد روئے زمین پر اتنا جاننے والا بھی تو نہیں ہوگا کہ ابن الوقت بھی کوئی تھے۔ بندے خدا ذرا تو سوچ کہ کہوں، خدا بھی ہے یا تم ہی تم ہو؟
ابن الوقت: آپ نے تو ناحق ڈپٹی کلکڑی کی، آپ کو تو سلطان الواعظین ہونا چاہیے تھا۔ لیکن گستاخی معاف، جتنی باتیں آپ نے کہیں اسا طیرالاولیں ہیں، مجھ کو بھی معلوم ہیں۔ آپ کی تمام تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے لاعلمی کا نام خدا رکھ چھوڑا ہے، دریافت سبب سے عاجز ہوئے خدا ماننے لگے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ مثلا آدمی پانی نہیں برسا سکتا تو کہتے ہیں خدا برساتا ہے۔ لیکن فرض کیجئے کہ کسی وقت پانی کو ہم اپنے بس میں کر لیں اور جب چاہیں برسا لیا کریں اور جب ہم کو یہاں تک پتہ لگ گیا ہے کہ ہوا بسیط نہیں، جیسا کہ متقدمین فلاسفہ خیال کرتے تھے، بلکہ آکسیجن، ہیڈروجن، نیٹروجن، تین قسم کی ہواؤں سے مرکب ہے اور ہوا میں اس درجے تک ہیڈروجن غالب ہو تو ہوا پانی بن جاتی ہے، کیا تعجب ہے کہ کسی نہ کسی دن ہم پانی کے برسسانے پر قادر ہو جائیں۔ جب سے یورپ میں علوم جریدہ شائع ہونے شروع ہوئے، ثابت ہوتا گیا کہ انسان کی طاقت محدود نہیں۔ کون کہ سکتا ہے کہ انسان، جس نے ریل چلائی، تار دوڑایا اور ہزارہانئی نئی چیزیں دریافت کیں آئندہ کیا کچھ نہیں کرے گا؟
حجتہ الاسلام: میں واقعات پیش کرتا ہوں اور تم مفروضات کا حوالہ دیتے ہو۔ یہ سچ ہے کہ اس زمانے میں انسان نے اپنی قوت کو بہ زھڑھا لیا ہے مگر "تانت باجی راگ پایا" معلوم ہے کہ انسان کہاں تک ترقی کر سکتا ہے۔ اس کی ساری پیری اتنی بات پر ختم ہے کہ وہ چیزوں میں ،س بھی سب میں نہیں، کسی قدر تصرف کر سکتا ہے اور بس۔ مثلا ریل میں سوائے اس کے اور کیا دھرا ہے کہ خدا نے کسی کے ذہن کو اس طرف منتقل کر دیا کہ بھاپ میں بڑی طاقت ہے، پھر لوگو لگے اس طاقت سے کام لینے کی تدبیریں کرنے۔ رفتہ رفتہ ریل چل کھڑی ہوئی۔ مگر یہ تو فرماؤ ریل کی ایجاد میں انسان نے سب کچھ تو کیا لیکن پانی، آگ، بھاپ، لوہا، لکڑی جو جو چیزیں ریل میں کام آتی ہیں، ان میں سے کوئی چیز یا کسی چیز کی کوئی خاصیت خلق بھی کی؟ یاد رکھو دریافت کرنے اور خلق کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ مجھ کو بھی یاد ہے میں نے مدرسے میں ٹریشم صاحب کو یہ تماشا کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ ایک شفاف بوتل میں ہوا بھرلی، تھوڑی دیر میں بوتل کے اندر پانی کی بوندیں بن جاتیں۔ اسی پر تم کو خیالی ہوا بھرلی، تھوڑی دیر میں بوتل کے اندر پانی کی بوندیں بن جاتیں۔ اسی پر تم کو خالی ہوا ہوگا کہ آدمی پانی برسانے پر قادر ہوجائے تو تعجب نہیں۔ تم کو تو شروع سے انگریزوں کے ساتھ عقیدہ ہے، اس تماشے کی تم ہی نے کچھ عظمت کی ہوگی، میں تو کئی بار بولنے کو ہوا تھا کہ اس میں آپ نے کمال ہی کیا کیا؟ ہم تو اپنے گھروں میں ہر روز دیگچی کی چینی سے بوندیں جھڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ لیکن صرف اتنی بات سے کہ آدمی نے تھوڑی سے جگہ میں کسی تدبیر سے اس قدر ہیڈروجن جمع کر دی جتنی ہوا کے پانی بن جانے کے لیے ضرور ہے، نہ خدا سے انکار کرستا اور نہ خدا سے مستغنی ہوسکتا ہے اور نہ خود دعویٰ خدائی کرسکتا۔ اور جب آدمی ہی بہ ایں عقل ودانش، خدا نہ ہوسکا تو چاند، سورج، عناصر وغیرہ کسی میں بھی خدا ہونے کی لیاقت نہیں، کیوں کہ ان میں تو عقل و ارادہ کی بھی کمی ہے اور مجبور محض اور لایعقل محض معلوم ہوتے ہیں، کالجاد اور حضرت ابراہیم علی نینا وعلیہ الصلوۃ نے جو چاند، سورج اور تاروں کو دیکھ کر فرمایا تھا، لا لحب الافلین کہ میں چھپ جانے والوں کو نہیں چاہتا، ان کا بھی یہی مطلب تھا۔
ابن الوقت: بات یہ ہے کہ دنیا کی پہلی کا کسی نے اتا پتا تو پایا نہیں، جو جس کی سمجھ میں آتا ہےل کہتا ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ناحق کیوں سر دکھایا، جس طرح دنیا چلی آئی، اس کو چلنے دیا جائے۔ میں تو حافظ کے اس شعر کو بہت پسند کرتا ہوں
سخن از مطرب و می گوز راز دہر کمتر جو
کہ کس نہ کشود و نہ کشاید بہ حکمت ایں معمارا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سکتا کہ وہ تم کو خدا کا دیدار دکھادے گا۔ مگر یہ تو فرماؤ کہ ثبوت، حجت، دلیل، سارے اذعان حاصل کرنے کے بعد ہیں، ازعان مرئیات اور ملموسات ہی میں منحصر ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہر شخص اپنے وجدانیات کا اذعان کرتا ہے حالانکہ امور وجدانی نہ مری، ہیں نہ ملموس اور تعمیم پر جو تم نے اعتراض کیا، کیوں کہ میں سمجھوں کہ حقیقت میں تم کو شک ہے، جب کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم کہتے کچھ ہو اور کرتے کچھ ہو۔​
ابن الوقت: یہ آپ نے کیا بات فرمائی؟​
حجتہ الاسلام: میرے کہنے کای ہ مطلب ہے کہ تم لوگوں پر تو اعتراض کرتے ہو کہ کثرت سے اسباب دیکھتے دیکھتے انہوں نے تعمیم کرلی ہے کہ ہر واقعے کے لیے سبب کا ہونا ضروری ہے، یعنی یہ تعمیم تمہارے نزدیک لوگوں کی غلطی ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ اگر تمہاری میز پر کی ایک پنسل، جگہ سے بے جگہ ہوجائے تو ضرور تم کو یقین ہوگا کہ کسی نے میری میز کو چھیڑ اور بے شک تم نوکروں پر خفا ہوگے کہ کیوں میری چیزوں کو ہٹاتے ،سرکاتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو اور لوگ کرتے ہیں وہی تم بھی دن میں ہزاروں بار کرتے ہو۔ تمہارا نوکروں پر خفا ہونا نتیجہ ہے اس تعمیم کا جو پہلے سے تمہارے ذہن میں مرتکز ہے کہ کوئی شے از قسم جماد اپنے ارادے سے حرکت نہیں کر سکتی تاوقتیکہ کوئی محرک اس کو نہ ہلائے۔ یا مثلا تم کو اس کا تو اذعان ہے کہ جس نے بشریت کا جامہ پہنا ہے۔ ایک نہ ایک دن ضرور مرے گا لیکن تم نے کتنے آدمیوں کو مرتے دیکھا اور سنا؟ اور تم کو محدود معلومات پر، گو وہ فی ھد ذاتہا کتنی ہی وافر اور وسیع کیوں نہ ہو، کلیہ قرار دیے لینے کا کیا منصب ہے؟ بلکہ تمہارے اعتراض کا ماحصل تو حقیقت میں یہ ہے کہ کلیہ ٹھہرانا ہی غلطی ہے، حالانکہ ساری دنیا کا اس پر اجماع ہے کہ قوائے عقلی میں سے ایک قوت تعمیم ہے اور دنیا کے کاربار کا مداراسی پر ہے اور قیامت اور بازخواست قیامت کا ثبوت پوچھو تو میں اس کے لیے نہیں بلکہ کل دینیات کے لیے وہی ایک ہدایت کرتا ہوں کہ پہلے دنیا کے حالات میں غور کرنے کی عادت ڈالو اور خدا کو منظور ہے تو ( میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنے دن میں مگر مخاصمانہ طور پر نہ ہو تو امید ہے کہ جلد) سب سے پہلے دل میں انکسار کی سی کیفیت پیدا ہوگی، یعنی تم پر یہ ثابت ہوجائے گا کہ میں اس عظیم الشان کارخانے میں محض ایک ذرہ ناچیز ہوں اور میری ہستی خواب خیال سے بھی زیادہ بے ثبات ہے۔ تب میں یقین کرتا ہوں کہ تمہارے شکوک خود بہ خود دفع ہو جائیں گے اور بے دلیل اعور بلا ثبوت تمہارا دل اندر سے گواہی دینے لگے گا کہ لاریب دنیا اور مافیا سب کا خالق خدا ہے۔ اس کی قدرت کی حو پایاں نہیں۔ کسی بشر کا مقدور نہیں کہ اس کی صفات کمالیہ پر احاطہ کر سکتے۔ وہ ہمارا مالک ہے اور اس کو ہر طرح کا استحقاق ہے اور ہم پر جس طرح چاہے حکمرانی کرے۔ اس وقت تم کو قیامت اور بازخواست قیامت اور دین کی سبھی باتیں مستبعد معلوم ہوتی ہوں گی لیکن اسی غور سے تمہارا سارا استبعاد جاتا رہے گال کیوں کہ دین بے جوڑباتوں کا مجموع نہیں ہے بلکہ اصول و فروع سب ایک دوسرے سے ملتے ہوئے ہیں۔ ممکن نہیں کہ آدمی خدا کا ازعان کرے " کماہو حق اذعائہ" اور پھر دین کی کسی بات میں ذرا بھی چون و چرا کر سکے" کلا لو تعلمون علم القین" ہم تو بھائی سیدھے مسلمان ہیں، خدا کو مانتے ہیں اور اس کو شرط انسانیت سمجھتے ہیں۔ دنیا کے حالات پر نظر کرتے ہیں تو عاقبت کا ہونا ایک امر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دل ہی کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ نیکی بدی میں امتیاز کرتا ہے اور خدا جانے کیوں کر بیٹھ گئی ہے، کسی طرح یہ بات ذہن سے نہیں نکلتی کہ اس دنیا میں تو نہیں، ہو نہ ہو مرے بعد اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا پر نکلے گا۔​
ابن الوقت: ہمارے دل میں تو ایک لمحے کو بھی ایسے خیالات نہیں آتے۔​
حجتہ الاسلام: آتے نہیں یا تم آنے نہیں دیتے اور آتے تو کویں نہ ہوں گے مگریوں کہوں کہ تم ایسے خیالات کو دل میں ٹھہرنے نہیں دیتے اور سچ ہے دنیا ہے بھی ایسی ہی جگہ اس میں کثرت سے وجوہ صارف موجود ہیں۔ اسی کا فضل دست گیری کرے تو انسان مشاغل دینوی پر غالب آسکتا ہے۔ اس جہان میں اور اس جہان میں نقدو نسیہ، موجود و موعود عاجل و آجل، شاہد و غائب، ظاہر و باطن،، مجازو حقیقت کا فرق ہے۔ واقع میں ادھر سے ٹوٹنا چھوٹنا، آسان کام نہیں مگر تا ہم "ملا یلدک کلہ لا بترک کلہ۔" آدمی اپنی طر سے کوشش کعرے اور اس کی عنایت کا امیدوار ہے۔​
میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ دین و مذہب کا اصل اصول طبیعت میں انکسار پیدا کرنا ہے، جس ڈھب سے ہو ۔ یوں سمجھو کہ آدمی بیمار ہے اور دین اعتدال مزاج۔ ہم کو دین کی ویسی ہی قدر ہونی چاہیے جیسی ایک شخص کو جو مرض مہلک میں مبتلا ہے، تندرستی کو ہوت ہے۔ جو شخص بیماری سے آگاہ ہے، کبھی اپنا علاج آپ کرتا ہے مگر "رای العایل علیل" اکثر طبیعت ہی کی طرف رجوع لاتے ہیں۔ وہ نبض سے قاردرے سے ، مریض کے بیان سے مرض اور اسباب مرض کو تشخیص کرکے دوا اور پرہیز دونوں بتاتا ہے اور خدا کو منظور ہوتا ہے تو مریض اس تدبیر ظاہر پر عمل کرنے سے آخر کار جاں بر ہوجاتا ہے۔ دین کے اعتبار سے ہم تم دونوں بیمار ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ تم اپنے تیئں بیمار نہیں جانتے۔ تمہاری بیماری درجہ روائت کو پہنچ گئی ہے اور تم کو خبر نہیں۔ تم نے علاج کی طرف بالکل توجہ نہین کی۔ میں بیماری کو سمجھتا ہوں مگر افسوس ہے کہ طبیب نہیں لیکن جس طرح دائم المرض اپنا علاج کرتے کرتے بعض دواؤں کی خاصیتیں جاننے پہچاننے لگتا ہے، اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تم کو طبیعت میں انکسار پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ ساز و سامان اور تزک و احتشام اور امارات اور حکومت یعنی لوازم رعونت سب سخت درجے کی بد پرہیشیں ہیں جن کے رہتے طبیعت میں انکسار پیدا ہونا محال نہیں تو مشکل ہونے میں کچھ شک بھی نہیں۔ وہ غور جو میں نے بتایا ہے، عمدہ دوا ہے اور مجھ کو اس نے بہت فائدہ دیا ہے۔ مرض گیا تو نہیں لیکن کمی ضرو ہے۔ طبیب سے میری کیا مراد ہے؟ پیر طریقت۔ طبیعت میں انکسار پیدا کرنے کے لیے یہ لوگ بہت تدبیریں کرتے ہیں، بعض ریاضات اور مجاہدات سے، بعض اسفار و سیاحلت سے اور کوئی صرف غور و فکر یعنی مراقبات سے۔ یہ طبیعتوں کے اختلاف حالات پر موقوف ہے کہ کون سی تدبیر سودمند واقع ہوگیا ور اس کی ۔۔۔ قابل اطمینان طبیب دین یعنی پیر طریقت ہی کر سکتا ہے۔ نزول مصائب کو طبائع کے رام کرنے میں اکثر سریع الاثردیکھا ہے: "ہوالذی یسیر کم فی البر و البحر حت اذا کتم فی الفلک و جران بھم بریج طیبتہ و فریوا پہا جاعنہا ربع عاصف و جائھم الموج من کل مکان و ظنوا انھم احیط بہم دعو اللہ مخلصیں الہ الزین لٹن انجیتنا من ھزہ لنکونن من الشاکرن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (عربی خود لکھ لیں پلیز) اللہ اللہ کیا بیان ہے۔ آدمی اگر آنکھوں پر ٹھیکریاں نہ رکھے کانوں میں روڑ نہ ٹھونس لے، جان بوجھ کر مگرانہ بنے تو اس کو دین دار کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے؟مگر​
نسیم غفلت کی چل رہی ہے امنڈ رہی ہیں بلا کی نیندیں​
کچھ ایسا سوئے ہیں سو نے والے کہ جاگنا حشر تک قسم ہے​
غرض مصیبت بھی دین دار کے حق میں بڑی نعمت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بزرگان دین مصیبت کو عزیز رکھتے تھے۔ بعض قلوب خلتقہ رقیق ہوتے ہیں اور دوسرے کو مبتلائے مصیبت دیکھ کر پگھل جاتے ہیں۔ پیغمبر صاحب علیہ من الصلوتہ اکملاہا نے شروع شروع میں انسدادبت پرستی کے لئے زیارت قبور سے منع فرمایا تھا۔ پھر ارشاد ہوا " ۔۔۔۔۔(عربی لکھ لیں پلیز) خشک سالی اور وبا اور آفات ارضی و ساوی ، مثلا شدید زلزلہ یا سخت آندھی یا بارش مضرط یا ذالہ زدگی وغیرہ ایسے مواقع پر بھی لوگوں کو انابت الی للہ ہوتی ہے اور بعض نافوس قدسی ایسے بھی ہیں کہ رہٹ چلتے دیکھا اور انقلاب دینا کے خیال سے ان کی حالت متغیر ہوئی۔ ع: بر آواز دولاب مستی کنند۔ اپنے نفس کا اندازہ تم ہی خود کرسکتے ہو۔ جس تدبیر کو موثر پاؤ کرو مگر کرو ضرور:​
کیا وہ دنیا جس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے​
واسطے عاں کہ بھی کچھ یا سب یہیں کے واسطے​
ابن الوقت: آپ تو مجھ کو راہب بنانا چاہتے ہیں، آپ کی یہ تعلیم خاص کر آپ کے مذہب اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ مرنامسلم ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسی مختصر زندگی میں ہم خوش بھی رہ سکتے ہیں۔ خوشی کے بہت سے سامان ہیں اور ہم کو خوشی اور رجن دونوں کا احساس بھی ہے۔ ہمارے احساس اور ساماں خوشی دونوں کے جمع ہونے سے اس کے سوائے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم کو یہ زندگی خوشی​
 
Top