اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھیا ایک اور ۔۔نہ ہوا تو میں کردوں گی۔
3.gif
ابھی میچ دیکھ رہا ہوں۔ جونہی میچ کچھ بور ہوا تو پھر کر دوں گا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 202 اور 203)​
فصل بستم
ابن الوقت کی مالی مشکلات

شروع سے سارا وبال ابن الوقت کے مال پر تھا۔ کلکٹر صاحب کے بگاڑ میں بھی وہ کئی ہزار کے پھیر میں آگیا۔ ان کی نا رضامندی کی ہوا کا پھوٹنا تھا کہ اگلے دن بلکہ شاید اسی دن خزانچی نے کہلا بھیجا کہ ایسا نہ ہو کہیں صاحب کلکٹر کے کان تک جا پہنچے۔ ڈپٹی صاحب تو ٹھہرے برابر کی ٹکر کے حاکم ، میری شامت آجائے گی ، حساب چکا دیں تو بڑی مہربانی کریں۔ اگر صرف خزانچی کا دینا ہوتا تو کوئی ترددّ کی بات نہ تھی۔ ابن الوقت نے معمول یہ رکھا تھا کہ عین تقسیم تنخواہ کے وقت کچھ زیادہ درکار ہوا تو خزانچی سے منگوا لیا۔ بس ابن الوقت خیال کرتا تھا کہ خزانچی کے بہت اڑ کر نکلیں گے تو مسا کرکے ہزار بارہ سو ، اس سے زیادہ نہیں مگر خزانچی کے تقاضے کے ساتھ اس کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر گڑوالے اپنا لینا مانگ بیٹھے تو بڑی مشکل ہوگی۔ ان کا حساب کتاب کچھ نہ ہوگا تو بھی دس کے پیٹے میں دو چار سو اِدھر اُدھر۔ اتنے کی سبیل سرِدست کہاں سے کی جائے گی؟ نوکری کا تو اب اتنا بھروسہ نہیں کہ دیکھیے مہینہ بھی پورا ہو یا نہ ہو اور مانا کہ رہی بھی تو ایسی متزلزل حالت میں تنخواہ پر مجھے کون قرض پکڑائے دیتا ہے۔ اب رہا سازوسامان ، اس میں شک نہیں کہ عمدہ ہے ، نفیس ہے ، قیمتی ہے ، مگر خریدنے میں اور بیچنے میں بڑا بل پڑ جاتا ہے اور پھر بیچنا بھی میرا بیچنا ، خوش خرید کا تو کیا مذکور ہے نیلام کرنا چاہوں تو کلکٹر کے ڈر کے مارے کوئی پاس آکر کھڑا نہ ہو۔ زمینداری کی گنجائش میں کچھ کلام نہیں ، جنگل ، باغات ، درختان ، متفرق ، سائر سوائے بہت سے رقمیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دس ہزار تو جنگل اور سر درختی سے جھاڑ لوں گا۔ مگر۔ ہا ! انعام خیر خواہی ، عطائے سرکار جس کی سند گورنمنٹ کی مہر سے مجھ کو ملی ہے ، اُس کے تو ایک تنکے کو ضائع کرنا بھی بے جا اور بدنما اور نامناسب اور موجب بدنامی ہوگا۔ سب سے بہتر تدبیر یہ ہے کہ بن پڑے تو شہر کے مکانات کو الگ کرو کیوں کہ یہ مکانات اگرچہ فی نفسہٖ بہت اچّھے ہیں شاہ جہانی وقتوں کے بنے ہوئے ، لداؤ کی چھتیں ، چوڑے چوڑے آثار ، اونچی کرسی ، وسیع شان دار ، مستحکم ، پائدار کوئی غرض مند لینے والا ہو تو ایک خاص بازار والی بارہ دری سے گڑوالوں کا سارا قرضہ اتر جائے ، جب یہ مکان بنا ہوگا تو دس ہزار کا چونا اور پانی لگ گیا ہو گا ، تہ خانوں کے روشن دانوں کی جالیاں ٹوٹ گئی تھیں اور تیس تیس روپے فی جالی لاگت آئی مگر مشکل یہ ہے کہ وہ مکان ہے مسلمان کے ڈھب کا اور مسلمانوں میں کوئی ایسا صاحبِ مقدور نظر نہیں آتا۔ بھائی حجتہ الاسلام عن قریب پنشن لے کر خانہ نشین ہونے والے ہیں اور حج کے جانے سے پہلے ذکر آیا تھا تو کہتے بھی تھے کہ موروثی مکان میں میرا گذر ہونا دشوار ہے ، کوئی موقع کا مکان معرضِ بیع میں ہو تو خیال رکھنا۔ وہ اس کو لے لیں تو سب بہتر بات ہے مگر ان کے پلے بھی دس ہزار کہاں سے آیا اور ہو بھی تو دس ہزار ایک مکان پر لگا دینا ایسا کیا آسان ہے اور پھر ان کے ساتھ بات چیت کروں تو خدا جانے کتنے دن میں جاکر بات طے ہو ، قیمت یک مشت دیں یا قسطیں ٹھہرائیں۔

آخر سوچ سمجھ کر ابن الوقت نے مولوی حجتہ الاسلام کو لکھا مگر اس طور پر کہ مجھ کو شاید فوراََ روپیہ درکار ہوا تو میں انتظار نہیں کر سکوں گا۔ ادھر اس نے کہا ، آؤ گڑوالوں کو ٹٹولو تو سہی۔ ایک آدمی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ ڈپٹی صاحب نے اپنے حساب کی فرد مانگی ہے۔ آدمی کو پیغام پہنچانا تھا کہ گڑوالے تاڑ گئے۔ آدمی سے اتنا ہی کہا ، بہت خوب کل ہمارا مختار فرد لے کر حاضر ہوگا۔ اگلے دن خود لالہ تکوڑی مل جا موجود ہوئے اور صاحب سلامت کے بعد پہلی بات انہوں نے یہی کی : " کیوں جناب ! ہم سے ایسا کون سا قصور سرزد ہوا کہ آپ نے فرد منگوا بھیجی؟ ہم کو آپ سے ایسی توقع
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 254 اور 255)

صاحب کو ولایت جانا پڑا۔ ان کو منہ موڑنا تھا کہ تمہارے خوابِ پریشاں کی تعبیر سامنے آنے لگی ، یہ سب تقدیر ہے۔ تم اپنی عادت کے مطابق ہوا خوری کو گئے۔دریا گنج کے نکڑ پر صاحب کلکٹر مل گئے ، وہ پیادہ اور تم سوار ، تم نے اپنے نزدیک اچھا کیا اور ہوگیا برا۔ انہوں نے تم سے گستاخی کا جواب طلب کیا ، تمام کام چھین کر کہہ دیا کہ کچہری میں بیٹھے مکھیاں مارا کرو ، یہ سب تقدیر ہے۔ دو برس سے اماں جان مجھ کو بلا رہی تھیں اور میرا آنا نہیں ہوتا تھا ، اب جو صاحب کلکٹر کی خفگی اور بارہ دری کی کی فروخت کا یہ حال ہوا ، ضبط نہ ہوسکا ، رخصت لی ، وِکٹر صاحب سے ملنے گیا ، تمہارے شارپ صاحب نکلے ان کے رشتے کے بہنوئی ، انہوں نے از خود چٹھی دی ، شارپ صاحب سے ملاقات ہوئی ، تمہارا تذکرہ آیا ، خدا نے کیا ، صفائی ہوگئی ، یہ سب تقدیر ہے ، کیوں ہے یا نہیں؟
ابن الوقت : توبہ ! تقدیر کیا ہے ، شیطان کی انتڑی ہے۔ کہیں پھر آپ میری زبان نہ پکڑیے گا۔ شیطان طوفان کو بھی میں مانتا وانتا خاک نہیں؟
حجتہ الاسلام : تمہارے ماننے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ جو واقعات حقہ اور نفس الامری ہیں اگر سارا جہاں ان سے انکار کرے تو بھی واقعات کا بطلان نہیں ہوسکتا۔
ابن الوقت : تو کیا آپ کے نزدیک شیطان بھی کوئی شے ہے موجود فی الخارج؟
حجتہ الاسلام : جی ہاں ! شے ہے موجود فی الخارج۔
ابن الوقت : پھر دوسری اشیائے موجود فی الخارج کی طرح ہم کو نظر کیوں نہیں آتا؟
حجتہ الاسلام : ہوا اور پانی میں جو بے شمار بھنگے ہیں اور جن کو بے مدد خردبین نہیں دیکھ سکتے یا مکھی کی لاکھ آنکھیں ہیں یا چاند میں سمندر اور پہاڑ ہیں اور بڑے پلے کی دوربین سے صاف دکھائی دیتے ہیں ، آخر یہ چیزیں تو خارج میں موجود ہیں اور ہم کو نظر نہیں آتیں۔
ابن الوقت : آنکھ سے دیکھا تو دیکھا اور خرد بین کی مدد سے دیکھا تو دیکھا ، غرض کسی نہ کسی طرح دیکھا تو سہی۔
حجتہ الاسلام : لیکن جس زمانے میں دور بین ، خردبین ایجاد نہیں ہوتی تھی ، لوگ ان چیزوں کو موجود فی الخارج مانتے یا نہ مانتے یا اب لاکھوں کروڑوں بندگان خدا ہیں جو خرد بین ، دور بین کے نام سے بھی آگاہ نہیں ، وہ ان چیزوں کو موجود فی الخارج مانیں گے؟ یا نہیں مانیں گے۔
ابن الوقت : نہ مانتے اور نہیں مانیں گے۔
حجتہ الاسلام : ہاں مگر ان کے نہ ماننے سے یہ لازم آجائے گا کہ مکھی کی لاکھ آنکھیں نہیں؟ اسی طرح اگرکوئی شخص مثل تمہارے وجود شیطان سے انکار کرے ، صرف اس وجہ سے کہ وہ شیطان کو دیکھ نہیں سکتا تو اس کا انکار کیوں مستند ہونے لگا؟
ابن الوقت : ہم نے تو خرد بین سے مکھی کی آنکھوں اور دور بین سے چاند کے پہاڑوں کے ہونے کا یقین کیا۔ اسی طرح آپ کو ذریعہ بیان کیجئے جس سے شیطان کے ہونے کا یقین کیا جائے۔
حجتہ الاسلام : وہ ذریعہ ہے خدا کے رسول کا ارشاد۔
ابن الوقت : بدیہیات میں سے تو نہ ہوا۔ ‫
حجتہ الاسلام : جن کی چشم بصیرت نور ایمان سے منور ہے ان کے نزدیک بدیہی بھی نہیں بلکہ اجلی البدیہیات۔ "فانھا لا تعمی الا بصار ولکن تعمی القلوب التّی فی الصدور۔"
ابن الوقت : اگر شیطان کو موجود منفرد مانا جائے تو خدا کو ظالم اور انسان کو مجبور مطلق ماننا پڑے گا۔ کیا انصاف ہے کہ آدمی پر ایک دشمن پہناں مسلط ہو۔
حجتہ الاسلام : تو تمہارا مطلب یہ ہے کہ سرے سے انسان کا پیدا کرنا ہی خلاف انصاف ہے کیوں کہ شیطان موجود منفرد ہو تو اور انسانی قوت ہو تو دونوں کا مال واحد ہے۔
ابن الوقت : خیر ، آپ کی عقل ایسے ڈھکوسلوں کو قبول کرتی ہوگی۔ کہئے تو آپ کی خاطر سے جھوٹ بول دوں ورنہ میں تو نہیں سمجھتا کہ جب تک مسلمان تقدیر اور شیطان اور اسی طرح کی دوسری لغویات کے معتقد رہیں گے ، ان کو کبھی فلاح ہو۔
 

میر انیس

لائبریرین
شارپ: خیر جی' وہ غدر تو گیا گزرا ہوا اور میں سمجھتا ہوں اس کا ہونا انگریزی حکومت کے حق میں مفید ہوا کیونکہ ہندوستانیوں کے دل میں یہ بھی ایک ارمان تھا سو نکل گیا۔۔ ہم لوگ ہمشی بلوے اور ہنگامےت کے نام سے ڈرتے تھے' اب معلوم ہوا کہ اس ملک میں بلوے اور ہنگامے ہونا بچوں کی بیچا ہے۔ سارتے ملک سے ہتھیار رکھوالئے گئے ہیں اور گورنمنٹ پہلے سے کہیں زیادہ قوی اور مطمئن ہے۔مگر آپ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ بغاوت کا مادہ لوگوں کے دلوں میں موجود ہے اور یہ ضرور پھر ایک نہ ایک دن اپنا رنگ لائے گا۔کس طرح کے لوگ ہیں کہ غدر کی وجہ سے اتنی آفتیں نازل ہوئیں اور پھر باز نہ آئے۔ ان کے لئے تو خالص ایشیائی حکومت چاہئیے۔ اسی کے یہ ہمیشہ سے خوگر ہیں اور اسی سے یہ ٹھیک بھی رہتے ہیں۔
حجۃ الاسلام: محال عقل ہے کہ انگریز حکومت ایسی اجلی اور مہذب اور شایستہ گورنمنٹ ہوکر وحشی اور بیہودہ اور نالائق گورنمنٹوں کا طریقہ اختیار کرے۔
شارپ: پھر آپ لوگ برٹش گورنمنٹ کی جیسی چاہئیے قدر کیوں نہیں کرتے؟
حجۃالاسلام: تمام ہندوستان میں کسی مذہب' کسی قوم کا ایک متنفس بھی ایسا نہیں جو برٹش گورنمنٹ کو تہ دل سے عیز نہ رکھتا ہو۔ ہم لوگ نیم وحشی' جاہل نامہذب جو کچھ ہیں ' سو ہیں مگر باولے نہیں کیہ اپنے نفع نقصان میں امتیاز نہ کرسکیں۔ امن اور آسدائش اور آزادی اور انصاف جان اور مال اور مذہب یعنی تمام، حقوق کی حفاظت اور فلاح و بہبود جو انگریزی عملداری میں رہے'ہم سمجھتے اور سب کے لیے'پہلے خدا کے اور خدا کے بعد گورنمنٹ کے بہت شکر گذار ہیں۔ ہم نے ایشیائی حکومت کی مصیبت نہیں جھیلیتو بھی ہم اس کی حقیقت سے واقف ہیں۔ ہم نے بزرگوں سے بہت سے دردناک افسانے سے ہیں اور ایشیائی گورنمنٹ کے نمونے اگرچہ برٹش گورنمنٹ کے طفیل سے پورےپورے نہیں پر ناقص اور ادھورے جابجا ایسی ریاستوں میں اب بھی موجود ہیں اور ہم میں کے بہت لوگوں کو دوسرے ملکوں میں جانے اور رہنے کا اتفاق ہوتا ہے۔غحرض' پردے کی بیٹھنی والی عورتیں بھی جانتیاں ہیں کہ انگریزی عملداری کے برابر روئے زمین پر کہیں آرام نہیں۔
صفحہ 249
شارپ: آپ یہ بھی کہتے ہیں اور آپ ہی کے بیان سے یہ بھی مستنبط ہوا کہ لوگ انگریزی عملداری سے خوش نہیں۔
حجۃالاسلام: میری زبان سے ایسے الفاظ شاید نکلے ہوں مگر خیر مطلب ایک ہی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میںگنتی کے چند آدمی پولیٹیکل باتوں کے سوچنے سمجھنے کی لیاقت رکھتے ہیں اور وہ چند آدمی بھی اکثر بلکہ سب سرکار کے بنائے'تیار کئے ہوئے ہیں جنہوں نے سرکاری کالجوں میں تعلیم پائی اور ان کی دو سے چار آنکھیں ہوئیں۔ غرض پولیٹیکل خیالات اس زمانےئ کلی جدید تعلیم کے نتیجے ہیں۔جوں جوں تعلیم کا رواج ہوتا جاتا ہے' پولیٹیکل خئیالات کی کثرت ہتی جاتی ہے۔قومی ااتفاق جس کو آپ نیشنلیٹی کہتے ہیں نیہ یہندوستان میہں اب ہے نہ آئیندہ اس کے قائم ہونے کی امید'نہ سارے ہندوستان کا کبھی ایک مذہب ہوگا اور نہ یہاں کے باشندے کبھی ایک نیشن بنیں گے۔ پس ناراض'نا خوش جو کچھ سمجھئے نئے تعلیم یافتہ کہ یہی لوگ اخباروں میں' لکچروں میں' اکثر جلی کٹی کہتے رہتے ہیں' سو ان کی ناراضگی اور نا خوشی بھی ہرگز مخالفانہ اور باغیانہ نہیں ہے بلجکہ اسی قسم کی جیسے آپ کے عملوں میں سے کوئی شخص اپنے تئیں ترقی کا مستحق سمجھتا ہے اور اس کو اس کی ضخواہش کے مطابق ترقی نہیں ملتی۔ آپ فرماتے ہیں کہ غدر کے بعد بھی لوگ باز نہ آئے' سو جناب من! غدر کے بعد ہندوستانی اور بھی شیخی میں آگئے۔ ان کی توقعات کی کچھ حد نہ رہی۔ کہتے ہیں کہ غدر میں لٹے کھسٹے' برباد ہوئے مگر خدا نے کمپنی سے پیچھا چھڑایا۔ سوداگر لکھ پتی'کروڑ پتی سہی مگر آخر ہے تو سوداگر جس نے ہر پیسے میں سے کچھ کوڑیاں بچابچا کر دولت جمع کی ہے' اس میں بداشاہ سےی سیر چشمی اور فیاضی کہاں اور پھر سوداگر کے علاوہ ملک کے ٹھیکیدار اور ٹھیکہ بھی معیادی' ان کو بادشاہ کی طرح رعیت کی پرداخت کا خیال کیوں ہونے لگا تھا۔ غرض کچھ ملے نہ ملے(اور نی کیوں ملے ہی گا) لوگ تو بڑی بڑی امیدیں لگا رہے ہیں۔ ملکہ کو دیکھا نہیں۔ بھالا نہیں اور دیکھنے کی امید بھی نہیں مگر خدا جانے کیا بات ہے ' کوئی دل؛ نہیں جس میں ملک کے نام کے ساتھ جوش نہ پیدا ہوتا ہو۔
شارپ: او صاحب! اگر بنگالی بابوئوں کا غل ہے تو کچھ ہونا جانا نہیں ۔ان
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 256 اور 257)

حجتہ الاسلام : ملاحی گالیوں کی سہی نہیں۔ خلط مبحث مت کرو۔ مقرر کرکے ایک ایک بات کہو تو جواب دیا جائے۔
ابن الوقت : آپ ہی انصاف سے کہئے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمّت نہیں کیا؟ سب سے بڑے دین دار ، ورثہ الانبیا ، دین کے حافظ ، دین کے حامی ، دین کے رواج دینے والے مولوی مشائخ اور یہ تو ہمارے گھر کا کام ہے ، ساری حقیقت آپ کو بھی معلوم ہے ، مجھ کو بھی معلوم ہے ، مرد و زن ملا کر ڈیڑھ سو پونے دو سو آدمیوں کی گزر کس چیز پر تھی؟ خیر خیرات پر۔ جس کو دیکھو تن بہ تقدیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔
حجتہ الاسلام : شخصیات سے بحث کرنے میں تو غیبت ہوتی ہے اور کسی کے نیت کا حال کیا معلوم؟ مگر تمہارا یہ خیال بالکل ہے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمت کر دیا ۔ دنیا میں مسلمانوں نے کیا نہیں کیا؟ ملک گیریاں کیں ، ملک داریاں کیں ، خشکی اور تری کے سفر کیے ، تجارتیں کیں ، صناعیاں کیں ، دست کاریاں کیں ، علم تحصیل کیے ، ایجادیں کیں ، غرض دنیا کے سبھی کام کیے اور ایسے کیے کہ ان کے زمانے میں دوسروں سے نہیں ہوسکتے تھے اور اب بھی زمینداری ، کاشتکاری ، دست کاری ، تھوڑی بہت تجارت ، برا بھلا پڑھنا لکھنا ، نوکری چاکری ، سبھی کچھ کرتے ہیں ، اور کرتے نہیں تو کھاتے پیتے کہاں سے ہیں؟ یہ بات دوسری ہے کہ جو چاہیے نہیں کرتے یا کرنے میں کمی کرتے ہیں مگر اس کے اسباب دوسرے ہیں ، نہ یہ کہ عقیدہ تقدیر نے ان کو کاہل کر دیا ہے۔ ہندو ، عیسائی یہودی کون ہے جو تقدیر کا قائل نہیں؟ تو اگر مجرد تقدیر پر عقیدہ رکھنا کاہلی کا باعث ہوتا ، یہ سب بھی کاہل ہوتے ، حالانکہ تم بالتخصیص مسلمانوں ہی کو ملزم ٹھہراتے ہو اور چونکہ تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں ، تقدیر پر عقیدہ رکھنا کاہلی کا سبب کیوں ہونے لگا ، بلکہ وافر مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں نے ثابت قدمی اور استقلال مزاجی کے ساتھ کوشش کی اور آخر کو کامیاب ہوئے۔ اس کی ایک مثال تو جالوت طالوت کا قصّہ ہے کہ جب فوجِ طالوت لشکرِ جالوت کے مقابل ہوئی تو طالوت کی فوج بہت تھوڑی تھی ، لوگ کہنے لگے : "ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کی مقاومت کی طاقت نہیں۔" یہ سن کر وہ لوگ جن کو خیال تھا کہ مرے پیچھے ہم کو خدا کے پاس جانا ہے ، کہنے لگے : "اکثر ایسا ہوا ہے کہ تھوڑے لوگوں نے بہتوں کو ہرایا ہے اور خدا صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔"اس کے بعد جو طالوت والوں نے کچکچا کر دھاوا کیا تو جالوت والوں کو مار ہٹایا اور جالوت مارا گیا۔ یہ قصہ قرآن میں مذکور ہے ، اگر تم کو خیال ہو۔ اس کو پرانی کہانی مت سمجھنا۔ ایسی باتیں اکثر اب بھی واقع ہوتی ہیں کہ صرف تقدیر کے بھروسے پر لوگ ہمت کر بیٹھتے اور مشکلات پر غالب آتے ہیں۔

مرد باید کہ ہراساں نشود​
مشکلے نیست کہ آساں نشود​

ابن الوقت : آپ تو فرماتے تھے کہ تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں ، پھر جو لوگ تقدیر پر بھروسہ کرکے کسی کام کی ہمت کر بیٹھتے ہیں ان کو کہاں سے خبر ہو جاتی ہے کہ تقدیر موافق و مساعد ہے۔
حجتہ الاسلام : یہ بھروسہ کرنے والوں کے دل سے پوچھنا چاہیے ، مثلاََ طرف داران طالوت نے "وَاللہ مع الصابرین" سے مساعدت تقدیر کا اذعان کر لیا اور ان کا اذعان سچ نکلا۔ ایک زمیندار کا حال مجھ کو معلوم ہے۔ وہ کچھ بسوے ہار گیا تھا۔ سنا ہے کہ بارہ برس سے اسی دھن میں پھرتا ہے ، کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ آدمی تھا نمازی ، ایک دن مسجد میں ملا ، میں نے اس کو سمجھایا : "کیوں پریشان ہوتے ہو ، صبر کرو۔" کہنے لگا : "ناخدا ترس وکیلوں نے میرے مقدمے کو خراب کیا مگر "الحق یعلو" میرا حق کبھی نہ کبھی ضرور مجھ کو ملے گا۔" پھر سنا کہ ڈسٹرکٹ جج کو جنگل میں اس نے اکیلا پا کر اپنا سارا حال بیان کیا اور ان کو اپنی صداقت سے مطمئن کر دیا۔ جج نے کوئی تدبیر کرکے اس کے بسوے نکلوا دیے۔ یہ تو میں نے تم کو مسئلہ تقدیر کا ایک پہلو دکھایا ہے ، یعنی انجام کار فوز اور کامیابی ہو تو اذعان تقدیر سے انسان کو کس قدر تقویت پہنچتی ہے۔ وہ تقدیر کے بھروسے پر جان توڑ محنت اور محنت کو خوش دلی سے برداشت کرتا ہے۔ رہی ناکامی اس کی جراحت کا تو اذعانِ تقدیر سے بہتر کوئی مرہم نہیں۔ معتقد تقدیر حرمان کو من
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 258 اور 259)

جانب اللہ سمجھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتا ہے کہ اسی میں کوئی مصلحت مضمر ہوگی۔ غرض تعجب ہے کہ تقدیر کا ایسا عمدہ مسئلہ اور تم اس پر معترض ، ایسا صحیح خیال اور تم اس سے منکر !
ابن الوقت : اگر دنیا میں اونچ نیچ ، خوشی اور رنج یعنی اختلاف حالات ، امر تقدیری ہے تو خدا کو دانش مند اور منصف اور رحیم ماننا مشکل۔
حجتہ الاسلام : تم کو سرے سے خدا ہی کا ماننا مشکل ہو رہا ہے۔ اس مشکل کو خدا آسان کرے تو پھر دین کی ساری باتیں تم کو سہل اور سلیس معلوم ہوں اور آسانی سے سمجھ میں آئیں۔ بھائی جان ! دینیات میں غور کرنے کا یہ طریقہ نہیں جو تم نے اختیار کیا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں :
گر بہ استدلال کار دیں بدے​
فخر رازی رازدار دیں بدے​

تمہاری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تم کو حاجت مندانہ دین کی طلب اور تلاش نہیں بلکہ تم دین کی باتوں سے اس طرح مخاصمانہ پیش آتے ہو جیسے کوئی عیار وکیل فریق مقابل کے گواہ سے۔ یوں تو دین کی نعمت نہ ملی ہے نہ ملے گی۔ ایک تدبیر تم کو میں بتاتا ہوں کہ جس وقت تمہاری طبیعت افکار دین سے بالکل فارغ اور مطمئن ہوا کرے ، تنہائی میں خصوصاََ رات کے وقت کبھی کبھی سوچا کرو کہ دنیا ہے کیا چیز؟ دنیا کا ایک بڑا بھاری عظیم الشان کارخانہ ہے۔ کہنے کو محدود ہے مگر کسی نے اس کی انتہا نہیں پائی۔ اس کارخانے کے مقابلے میں زمین کی ، باایں وسعت ، اتنی بھی تو حقیقت نہیں جیسے بڑے سے بڑے پہاڑ کے آگے ایک ذرے کی۔ کیا علم ہیئت کی باتیں خیال سے اتر گئیں؟ تم تو سب سے زیادہ ان کی طرف داری کیا کرتے تھے۔ اگر وہ سب باتیں سچی ہیں اور جب مشاہدات اور اصول ہندسہ پر مبنی ہیں تو ان کو غلط ہی کون کہہ سکتا ہے۔ ہزار دس ہزار ، بیس ہزار ، پچاس ہزار ، لاکھ کوس تک کا بھی خیر یوں ہی سا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں ، مہا سنکھ در مہا سنکھ کوسوں کے سمجھنے کو کس کی اٹکل لائیں؟ بھلا کچھ ٹھکانا ہے ان دوریوں کا کہ زمین پر سے گولہ چھوٹے اور شبانہ روز متصل ایک رفتار سے سیدھا چلا جائے تو انیس برس میں جاکر آفتاب تک پہنچے۔ اللہ اکبر جل شانہ !

بڑے سے بڑے پلے کی دور بینیں ایجاد ہوئیں مگر ہم نے اجرام فلکی کا کیا دیکھا؟ ایک جھلک ، وہ بھی ان معدودے چند کو جس زمین سے بہ نسبت دوسرے بے شمار اجرام کے قریب ہیں۔ کبھی آسمان خوب صاف ہوتا ہے تو اندھیری رات میں کس کثرت سے ستارے دکھائی دیتے ہیں ! گویا گہری افشاں چھڑکی ہوئی ہے اور اگر کسی طرح اونچے سے اونچے ستارے پر پہنچنا ممکن ہوتا تو وہاں سے بھی جہاں تک اور آگے کو نظر کام کرتی ، یہی کیفیت دکھائی دیتی "وھلم جرا" پھر خدا جانے کتنے کالے کوسوں کی مسافت ہے کہ ستارے ہم کو ننھے ننھے نقطے دکھائی دیتے ہیں ورنہ جس طرح اس کا یقین ہے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں اسی طرح جاننے والوں کو اور خاص کر تم کو اس کا اذعان ہونا چاہیے کہ ایک ایک نقطہ بجائے خود جہاں ہے ، اور جہاں بھی کیسا کہ اگر اس کو بڑا مٹکا فرض کرو تو زمین اس کے سامنے خشخاش کا نہ سہی تو رائی کا دانہ۔ جو تارے زمین سے زیادہ پاس ہیں یعنی ان کی دوری لاکھوں کوس کے پیٹے کی اندر ہی اندر ہے ، دور بین کی مدد سے ان کے حالات کسی قدر زیادہ دریافت ہوئے ہیں اور پاس پڑوس کی آخر تھوڑی بہت خبر ہونی ہی چاہیے۔ سمندر ، جھیلیں ، پہاڑ ، دھوپ چھاؤں ، ہوا ، بادل ، یہ سب چیزیں ان تاروں میں صاف دیکھ پڑتی ہیں۔ اس سے اور دوسرے بہت سے قرائن سے علمائے ہیئت قیاس کرتے ہیں اور بجا قیاس کرتے ہیں کہ زمین کی طرح ان جہانوں میں بھی جان دار آباد ہیں۔ یہاں عقل انسانی کے اوسان اور بھی گم ہیں ! بھلا اتنے بے شمار جہانوں کی کل مخلوقات کا تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں جب کہ ایک زمین کی مخلوقات کی گنتی تو درکنار تمام اقساط تک منضبط نہیں۔ "وما من دابتہ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امم امثالکم۔"

کسی کتاب میں نظر سے گزرا کہ زمانہ حال کا کوئی فلسفی خردبین میں پانی کی ایک بوند کو دیکھ رہا تھا ، سو سے زیادہ طرح کے جان دار تو وہ اس ایک بوند میں بہ مشکل شمار کرسکا۔ آخر تھک کر بیٹھ رہا۔ ایک بوند میں اتنی مخلوقات ہو تو تمام کرہ آب میں جو تین چوتھائی زمین کو ڈھانکے ہوئے ہے ، کتنی مخلوقات ہوگی؟ خدا ہی کو خبر ہے۔ "وما
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھیا ایک اور ۔۔نہ ہوا تو میں کردوں گی۔
3.gif
یا گھوڑے سے اترتے کے ساتھ ہی اردلی کو حکم بھیجا کہ جو صاحب پالکی میں آئے ہیں ان کو اندر بھیج دو۔ صاحب سلامت ہوئی۔ غور سے دیکھا مہربانی سے بٹھایا اور کہا کہ وکٹر صاحب نے چٹھی میں آپ کو ایسے تفصیلی حالات لکھے ہیں کہ میں آپ سے اجنبی محض ہو کر نہیں ملتا۔ صاحب کی رائے آپ کی نسبت بڑی عمدہ ہے اور آپ اس کے مستحق ہیں۔
حجتہ السلام: ان کی قدر دانی اور آپ کی بندہ نوازی ہے۔ وکٹر صاحب جتنی میری قدر کرتے ہیں، میں ان کی خوشنودی کی اس سے بہت زیادہ قدر کرتا ہوں۔
شارپ: ڈپٹی ابن الوقت آپ کے کیسے بھائی ہیں؟
حجتہ السلام: میرے تو وہ کسی طرح کے بھی بھائی نہیں مگر ہاں میری بی بی ان کی پھوپھی زاد بہن ہے۔ اس رشتے سے چاہے مجھ کو بھی ان کا بھائی سمجھ لیجئے۔
شارپ: وہی تو کہوں، نہ تو آپ کی ان کی صورت ملتی ہے اور ان کی وضع تو بالکل صاحب لوگوں کی سی ہے۔ آپ ٹھہرے تو ابن الوقت صاحب ہی کے پاس ہوں گے؟
حجتہ السلام: نہیں میں تو شہر میں ٹھہرا ہوں۔
شارپ: کیوں صاحب آپ کو تو سب خبر ہوگی، ابن الوقت صاحب نے اس وضع کے اختیار کرنے میں کیا مفاد سمجھا؟
حجتہ السلام: بات یہ ہے کہ جن دنوں ابن الوقت کالج میں پڑھتے تھے تبھی سے ان کو انگریزیت کی طرف میلان سا تھا بلکہ ہم لوگ ان کو چھیڑا بھی کرتے تھے۔ مگر ان کی یہ کیفیت تھی کہ ہر بات میں ادبدا کر انگریزی کی جانب داری کیا کرتے۔ ان دنوں مجھ کو خوب یاد نیچرل فلاسفی، ایسٹرانمی (Astronomy) کی کتابیں انگریزی سے ترجمہ ہو کر اورینٹل کلاسوں میں نئی نئی جاری ہوئی تھیں تو زمین کی کرویت، اس کی گردش، کشش ثقل، نظام شمسی وغیرہ مسائل سے ہم سب کو شروع شروع میں اچنبھا سا ہوتا تھا اور اکثر ابن الوقت کو ہم لڑکے باتوں باتوں میں بند کر کر دیتے۔ مگر یہ شخص قائل نہ ہوتا اور ہار کر کہتا تو یہ کہتا کہ اگرچہ میں تم کو سمجھا نہیں سکتا لیکن انگریزی اصول غلط ہو ہی نہیں سکتے۔ الغرض طفولیت سے اس شخص کے مزاج کی افتاد اسی طرح کی واقع ہوئی ہے۔ اب غدر میں اس کے بعد نوبل صاحب سے اختلاط ہوا زیادہ، میرے نزدیک تو اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ مفاد و مطلب پر نہ پہلے نظر تھی نہ اب ہے۔
شارپ: آپ کی رائے بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے اور بدھ بھی ملتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بڑائی کے مارے اس وضع کو اختیار کیا ہے۔
حجتہ السلام: بڑائی تو خدا کی ہے مگر خدا نے آپ لوگوں کو دنیاوی بڑائی دی ہے تو آپ کی سبھی چیزوں میں بڑائی کی شان ہے، یہاں تک کہ لباس میں تو بلاشبہ۔ جو اس لباس کو پہنے گا لوگوں کی نظروں میں بڑا دکھائی دے گا۔ مگر میں نہایت وثوق کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ شیخی، غرور و تکبر، خود پسندی، یہ باتیں تو بھائی ابن الوقت کو چھو نہیں گئیں۔ جس نے کہا جھک مارا۔ میں ان کے ساتھ بچپن سے کھیلا ہوں، پڑھا ہوں، رہا ہوں، مجھ سے بہتر کوئی ان کی خصلت اور عادت کو جان نہیں سکتا۔ غدر سے ان کے مزاج میں کچھ شیخی سما گئی ہو تو خبر نہیں، ورنہ غدر سے پہلے تک تو ان میں شیخی کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ نوکری اور زمینداری کے برتے پر شیخی میں آ گئے تو غدر سے پہلے بھی گرے پڑے نہ تھے۔ نواب معشوق محل بیگم کی سرکار میں تمام سیاہ و سفید کے مختار کل تھے اور خاندانی تعزز اور مقدرت دونوں کے لحاظ سے اس وقت بھی عمائد شہر میں سمجھے جاتے تھے۔ کیا ان کےپاس متعدد نوکر نہ تھے، متعدد سواریاں نہ تھیں، متعدد حویلیاں نہ تھیں؟ چار پانچ بنگلوں کا مول تو ان کی ایک بارہ دری کھڑی ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ تنخواہ بھاری نہ تھی، سو بادشاہی سرکاروں میں ان کی کیا تخصیص ہے؟ سبھی کی تنخواہیں تھوڑی ہوتی تھیں۔ مگر انعام و اکرام ملا کر دس دس روپے کا نوکر ایسی اچھی شان سے رہتا تھا کہ ہمارے یہاں سو کے تنخواہ دار کو بھی وہ بات نصیب نہیں۔ غرض شیخی کا الزام تو نرا ڈھکوسلا ہے، خودداری کہیئے تو ایک بات بھی ہے لیکن خودداری میرے نزدیک لازمہ شرافت طبعیت ہے۔ آدمی آدمی سب برابر، تاہم انتظام الٰہی اس کا متقضی ہے کہ ان میں مراتب کا تفرقہ ہو، کوئی باپ ہے کوئی بیٹا، کوئی حاکم ہے کوئی محکوم، کوئی آقا ہے کوئی نوکر، کوئی امیر ہے کوئی غریب۔ اگر خودداری نہ ہو تو دنیا کا انتظام درہم برہم ہو
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین

کے دماغ میں یہ خبط سمایا ہے کہ صرف ٹوٹی پھوٹی انگریزی پڑھ لینے سے ہم بھی یورپینز کی طرح کے ادمی ہیں اور ہمارے ساتھ بھی یورپینز کی طرح کی ان میں تیشنیلٹی نہیں، پبلک اوپیٹین نہیں، آزادی نہیں، روشن ضمیری نہیں، جفا کشی نہیں، استقلال نہیں، جرات نہیں، سچائی نہیں، سچ کی تلاش نہیں، یک دِلی نہیں، اتفاق نہیں۔
حجتہ الاسلام: یہ آپ کا فرمانا بالکل درست ہے مگر لوگوں میں انگریزیت چلی آتی ہے اور گورنمنٹ بھی آہستہ آہستہ ہندوستانیوں کو اختیارات دیتی جاتی ہے۔ ابھی غدر کو کے دن ہوئے، گورنمنٹ کی شان ہی دوسری ہوگئی ہے۔
اس کے بعد شارپ صاحب نے سامنے میز پر ٹائم یس کو دیکھا تو حجت الاسلام نے کہا میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آج میں نے آپ کا بہت سا قیمتی وقت صرف کرا دیا۔
شارپ: مجھ کو آپ کی ملاقات سے بڑی خوشی ہوئی اور جیسا کہ وکٹر ساحب نے لکھا ہے آپ بڑی معلومات اور بڑی عمدہ رائے کے آدمی ہیں اور مجھ کو ہمیشہ آپ کی ملاقات سے خوشی ہوگی۔ میں وکٹر صاحب کو بڑی شکرگزاری لکھوں گا اور میں آپ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے بھائی ابن الوقت کے بارے میں بالکل سچی سچی خبردی ورنہ مجھ کو لوگوں نے ان سے بہت ہی بد ظن کر دیا تھا۔
حجتہ الاسلام: آپ کی اس قدر عنایت دیکھ کر اب تو مجھ سے بھی صبر نہیں ہو سکتا اور میں بہ منت آپ سے التماس کرتا ہوں کہ آپ بھائی ابن الوقت کی طرف سے صاف ہوجائیے۔
شارپ: میں نے تمام غلط خیالات کو دل سے نکال ڈالا اور میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھ سے ان کے بارے میں غلطی ہوئی۔ جو باتیں لوگوں نے مجھ سے کہیں، ان کے ظاہر حال سے ان کی تصدیق ہوئی تھی۔ میں نے ان سے سب کام نکال لیا تھا اور ہر چند صاحب کمشنر نے لکھا ہے کہ بغاوت کا محکمہ رازداری کا محکمہ ہے اور اس کےفیصلے عام قوانین کے تابع نہیں، محکمہ بغاوت کی مثلیں دوسرے عملوں کو مت دیکھنے دو اور جن مقدمات میں ابن الوقت کاروائی کر چکے ہوں، ان ہی سے فیصلہ کراؤ مگر میرا ارادہ ابن الوقت صاحب کو کام دینے کا نہ تھا اور امروز فردا میں میں رپورٹ کرتا مگر آپ نے جو حالات بیان کیے ان سے میری رائے بالکل بدل گئی۔ آج ہی ڈپٹی صاحب کو ان کے کام پر مسلط کردوں گا۔
حجتہ الاسلام: کام نکال لیے جانے کو تو ان کو مچلق شکایت نہیں۔ ان کو اگر شکایت ہے تو اس بات کی ہے کہ آپ نے ان کو اپنی صفائی کے ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا ورنہ یہاں تک نوبت ہی نہ پہنچتی۔
شارپ: شکر ہے کہ میرا ہاتھ سے ان کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچا۔
حجتہ الاسلام: یہ تو نہ فرمائیے، سو سائٹی میں ان کی بڑی بے وقتی ہوئی ۔
شارپ: (ذرا تامل کر کے) میں سوچ کر اس کی تلافی کردوں گا مگر انہوں نے وضع ایسی اختیار کی ہے کہ کوئی انگریز ان کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کر نہیں سکتا۔
حجتہ الاسلام: آپ کو ان سے خانگی طور پر ملنے نہ ملنے کا اختیار ہے مگر میں ان کے تعزز منصبی کی حفاظت کے لیے عرض کرتا ہوں۔
شارپ: میں ضرور اس کا خیال کروں گا۔
چنانچہ اسی دن شارپ صاحب نے تحقیقاتِ بغاوت کے تمام مقدمات کامل و ناکامل سب ابن الوقت کے محکمے میں واپس کر دیے۔ روبکار میں استمالت کے الفاظ، جن سے ایک طرح کی معزرت بھی مترشح ہوتی تھی، لکھوا دیے اور ابن الوقت کے نام ایک چھٹی الگ لکھی کہ آپ کے بھائی حجتہ الاسلام سے جو میں نے آپ کے حالات سنے، میرے سارے شکوک رفع ہوگئے اور میں آپ سے اپنی غلطی کی معافی چاہتا ہوں اور اگر آپ اپنے بھائی حجتہ الاسلام کی سی وضع اختیار کریں جو آپ کی قومی وضع ہے اور جس میں آپ نے بھی اپنی عمر کا بڑا حصہ بسر کیا ہے اور جو ہر ایک ہندوستانی شریف کے لیے زیبا اور راحت بخش ہے تو مجھ میں اور آپ میں ایسی دوستی قائم ہوگی جس کو میں ساری عمر نبا ہوں گا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
حجتہ الاسلام اور ابن الوقت کی دوسری ملاقات اور پھر مذہبی بحث

اگلے دن ابن الوقت کو تو صبح ہی سے حجتہ الالسلام کا انتظار تھا مگر یہ گھر سے کھانا وانا کھا پی کر چلے تو پہنچتے پہنچتے ساڑھے دس بج گئے تھے۔ دور سے دیکھتے ہی ابن الوقت نے کہا: آپ حقیقت میں بڑے خوش تقدیر ہیں کہ شہر میں جاتے ہی اسی رات پانی برسا اور خوب برسا۔ لُوتو اب بالکل گئی، ٹنیاں دو چار دن کی مہمان اور ہیں۔"
حجتہ الالسلام: الحمداللہ ثم الحمداللہ۔
ابن الوقت: ٹم الحمداللہ کیسا؟
حجتہ الالسلام: تم ایک ہی ثم لیے پھرتے ہو، خداواند کریم کے تمام بندوں پر ہمہ وقت اتنے وافراحسانات ہیں کہ ایسے ایسے لاکھوں کروڑوں ثم بھی ان کی تلافی نہیں کرسکتے مگر میں نے پہلا الحمداللہ اپنی خوش تقریری پر کہا اور درسرا اس بات پر کہ بھلا تم نے تقدیر کو تو مانا۔
ابن الوقت: یہ لفظ تو بے خیالی میں عادت کے مطابق میرے منہ سے نکل گیا ورنہ میں تقدیر کا بالکل قائل نہیں اور میرے نزدیک اسی طرح کے لغو معتقدات نے مسلمانوں کو کاہل اور نالائق بنا کر اس عرجے کو پہنچایا ہے کہ روئے زمین پر ان سے زیادہ مفلس اور تباہ حال کوئی قوم نہیں۔
حجتہ الالسلام: تم کیوں اس قدر مسلمانوں کے پیچھے پڑے ہو؟ کیا ریفار مر بننے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ زبردستی کوئی نہ کوئی الزام کسی کے پلے باندھ کر اپنے تیئں سرخ رد اور درسرے کو انگشت نما کیجئے۔ مسلمانوں کی کیا تخصیص ہے۔ جو شخص خدا کو مانتا ہے، کسی مذہب کا ہو، وہ ضرور تقدیر کا بھی قائل ہوگا۔ پہلے سمجھو تو سہی کہ تقدیر ہے کیا چیز؟ تقدیر کے لغوی معنی ہیں اندازہ ٹھہرنا۔ دنیا میں کوئی چیز نہیں جس کا اندازہ نہ ہو: انا کل شئی خا۔۔۔۔۔۔۔۔) پس اگر دنیا ہے تو اس کے ساتھ تقدیر بھی ہے، یا دوسرے طور پر سمجھو مثلاَ تم جانور یا درخت نہیں بنائے گئے بلکہ آدمی، یہ تقدیر ہے، مرد بنائے گئے عروت نہیں، یہ تقدیر ہے۔ ہندوستان میں اور ہندوستان میں سے خاص دلی میں پیدا ہوئے، یورپ یا افریقہ یا امریکہ یاکسی دوسری جگہ نہیں، یہ تقدیر ہے۔ تیرھویں صدی کے خاص حصے میں تمہاری ہستی ہوئی، اس سے پہلے یا پیچھے نہیں، یہ تقدیر ہے۔ ایک خاص مسلمان کے گھر پیدا ہوئے، ہندو یا عیسائی یا کسی دوسری قوم یا کسی دوسرے شخص کے یہاں نہیں، یہ تقدیر ہے۔ ایک خاص حالت میں پرورش پائی، بڑے ہوئے، پڑھے، لیاقت پیدا کی، نواب معشوق محل بیگ کی سرکار کے، مختار کل ہوئے، یہ تقدیر ہے۔ غدر کے وقت اسی شہر میں موجود تھے، عین اسی زمانے میں نوبل صاحب ولایت جاتے ہوئے دلی میں ٹھہر، باغیوں نے ان کو پکڑا اور اپنے پندار میں مار ڈالا، تم جاپہنچے اور نیم جان کو اٹھا کر گھر لے گئے، مرہم پٹی کی، اچھے ہوئے، تمہارے گھر ان کا رہنا کسی طرح پر ظاہر نہ ہوا، آخر کار صحیح سلامت انگریزوں میں جا ملے، یہ سب تقدیر ہے۔ تم کو دفتہَ بھرا بھتولا گھر چھوڑ کر شہر سے نکل جانا پڑا، بے سرد سامان باہر پڑے پھرتے تھے اور قریب تھا کہ فوج فتح مند کے سوار بیگار میں پکڑ کر تم سے مزدور کاکام لیں کہ اتنے میں نوبل صاحب رجال الغیب کی طرح آ موجود ہوئے اور تم کو عزت اور آبرو سے لے جا کر گھر میں بسایا، جاگیر اور نوکری دلوائی، یہ سب تقدیر ہے۔ اس اثنا میں تم کو انگریز بننے کا خبط نے آگھیرا، خوب خوب ڈنر دیے اور بڑی بڑی پارٹیاں بلائیں۔ ہندوستانیوں کے ردٹھنے چھوٹنے کی تو تمہیں کیوں پروا ہونے لگی تھی، انگریز بھی بجائے خود چڑے، بگڑے۔ لیکن تھٹیا چائے اور کافی، سوڈا واٹر اور برف اور سگرٹ کے لالچ سے اور بڑھیا کچھ تو نوبل صاحب کے مروت سے اور کچھ تمہاری خیر خواہی اور تعزز منصبی کے لحاظ سے طوعا کرھا، تم سے ملنے لگے۔ تم نے سمجھا انگریزوں نے مجھ کو اپنی سوسائٹی میں لے لیا، یہ سب تقدیر ہے۔ خدا نے ایک دم پانسو روپے ماہوار کی آمدنی کردی تھی۔ ہندوستانی بھلے آدمی بن کر رہتے تو آج کو امیر ہوئے اور کچھ نہیں تو دس بارہ ہزار روپیہ تمہارے پلے ہوتا۔ سو تم نے ایک خبط کے پیچھے ساری آمدنی پر پانی پھیرا، دس بارہ ہزار الٹا قرض کیا، اب بزرگوں کی پیدا کی ہوئی جائداد کے بیچنے کی نوبت پہنچی، یہ سب تقدیر ہے۔ اچانک نوبل
 
Top