خرم شہزاد خرم
لائبریرین
فضل ششم
غدر کے بعد ابن الوقت اور نوبل صاحب کی پہلی
تفصیلی ملاقات۔ ابن الوقت نے نوبل صاحبکے
ساتھ میز پر چھری کانٹے سے کھاناکھایا
دربار کے مجمع میں نوبل صاحب نے اپنی ملاقات کا وقت بیتا ہی دیا تھا، دربار کے تیسری دن ابن الوقت ٹامس صاحب کی کوٹحی پر جاموجود ہوا۔ کوٹھی بجائے خود ایک چھاؤنی تھی۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ زود بنگلے میں ہیں۔ بنگلے کا احاطہ الگ تھا۔ دیکھتا کیا ہے کہ احاطے کے بیرونی دروازے پر ملاقاتیوں کی سواریاں کھڑی ہیں۔ دروازے کے اندر چھوٹا سا مگر وسعت پیش صحن کے مناسب چمن ہے، خوب صورت، آراستہ و پیراست، اور اتنے ہی سے چمن میں چار مالی کام کر رہے ہیں۔ درختوں کی شادابی، سڑکوں کی صفائی، روشوں کی درستی کہے دیتی ہے کہ مالی صرف نوکری کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے شوق سے بھی کام میں لگے لپٹے رہتے ہیں۔ پر ہاں ، کیا ریوں کی قطع اور درختوں کے انتخاب سے ایک حاضی سلیقہ اور نداق ظاہر ہوتا ہے جو کسی مالی کے بس کا نہیں۔
ابن الوقت اس چمن میں جابجا رکتا، ٹھٹکتا برآمدے تک پہنچا تو ملاقاتیوں کا ہجوم تھا! بعض کرسیوں پر تھے، بعض فرش پر اور بعض(شاید امیدوراہوں) برامدے کے دونوں طرف نیچے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ نوبل صاحب کے آدمی ابن الوقت کو جان پہچان تو چکے ہی تھے، آتا ہوا دیکھ سب نے اسے کھڑا ہو کر سلام کیا اور اتنی اس کے ساتھ حضوصیت برتی کہ ایک الگ کمرے میں لے جا کر بھٹادیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک چپراسی نے آ خر خبر دی کے صاح کو آپ کی اطلاع ہوگئی ہے۔
ابن الوقت: پھر صاحب نے کیا فرمایا؟
چپراسی: آپ نے دیکھا کتنے آدمی آپ سے پہلے کے آئے ہوئے بیٹھے ہیں۔
ابن الوقت: ان لوگوں کی ملاقات چار چار پانچ پانچ منٹ بلکہ صاحب نے آپ کا آنا تو سن ہی لیا ہے، لوگوں کو جلد جلد رخصت کریں گے۔ کیا کہیں صاحب، ہمارے صاحب کا مزاج ہی اس طرح کا ہے کہ کوئی آکھڑا ہو تو اس کو جواب نہیں دیتے۔ ملنے کے تو بڑے دھنی ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں چھٹی نہیں ملتی، نہیں تو اب تک کبھی کے آپ کے سلام کو حاضر ہوئے ہوتے۔ اتوار کو ضرور سارے شاگرد پیشہ پیش ہوں گے، سب لوگ بڑی آس لگارہے ہیں۔
ادھر نوبل صاحب اپنی جگہ ابن الوقت کے خیال سے واقع میں دو ہی دو باتیں کر کے لوگوں کو اوپر تلے ٹال رہے تھے ، پھر بھی ابن الوقت کو آدھ گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔ اس کی ملاقات نوبل صاحب کے ساتھ ایسی حالت میں شروع ہوئی کہ نوبل صاحب کی اس وقت کچھ ہستی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد سے جب جب نوبل صاحب سے ملے، منصبی اور قومی تعزز ہر حال میں ان کے ساتھ تھا۔ خواجہ باقی باللہ کی سڑک پر جب کہ ابن الوقت بیکار میں پکڑا ہوا ایک گٹھراٹھانے کو تھا، نوبل صاحب کو اس نے دیکھا کئی انگریزوں کے ساتھ عربی گھوڑے پر سوار ۔ پھر دربار میں دیکھا تو دربار کا اہتمام کرتے ہوئے انگریزوں میں پیش پیش۔ پھر آج اپنے بنگلے پر کہ ملاقاتیوں کی سواریاں دروازوں پر کھڑی ہیں اور شہر کے بیسیوں رائیس سلام کے منتظر حاضر۔ شاگرد پیشہ لوگوں کی یہ کثرت کہ احاطہ بجائے خود ایک چھوٹا سا محلہ معلوم ہوتا ہے۔ ہر قسم کی متعدد سواریاں احاطے کے اس سرے سے اس سرے تک بھری پڑی ہیں۔ بنگلے کے