عائشہ عزیز
لائبریرین
289-290
ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
پردے کی حمایت و تائید میں اقبال نے "خلوت" کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورت کو یکسو ہو کر اپنی صلاحیتوں کو نسلوں کی تربیت پر صرف کرنے اور اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کو موقع ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے سماجی خرابیوں سے الگ رہ کر اپنے گھر اور خاندان کی تعمیر کا سامان میسر آتا ہے، گھر کے پر سکون ماحول کے اندر اسے زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات کو سوچنے سمجھنے کی آسانیاں ملتی ہیں، اور اس طرح وہ اپنے اور دوسروں کے لیے بہتر کار گزرای کرسکتی ہے
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ولیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر
ایک بڑا معاشرتی سوال یہ رہا کہ مرد و زن کے تعلق میں بالا دستی (UPPER HAND) کسے حاصل ہو اس لیے کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں کوئی ایک فریق شریک غالب کی حیثیت ضرور رکھتا ہے، اور یہ اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہے کہ ہر شے اور ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر ایک ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے خصوصاََ مرد و زن کے تعلقات میں چند چیزوں میں مرد کو عورت پر فضلیت اور اولیت حاصل ہے، اور یہ بھی کسی نسل اور صنفی تفریق کی بنا پر نہیں بلکہ عورت کے حیاتیاتی، عضویاتی فرق اور فطرت کے لحاظ کے ساتھ اس کے حقوق و مصالح کی رعایت کے پیش نظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگرانی اور "قوامیت" ایسی چیز نہیں جو مرد اور عورت دونوں کی سپرد کر دی جاتی یا عورت کو دے دی جاتی، اقبال نے مغرب کے نام نہاد "آزادئ نسواں" کی پروا کیے بغیر عورت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی پرزور وکالت کی اور عورت کی حفاظت کے عنوان سے کہا؎
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگون میں ہے لہو سرد!
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
یہ نظم در حقیقت حدیث شریف "لن یفلح قوم ولو علیھم امراۃ" کی ترجمانی ہے، انہون نے اپنی دوسرے نظم میں فرمایا ؎
جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منتِ غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود
راز ہے اس کے تب غم کا یہی نکتہ شوق
آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکہ ابود و نبود
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہ شکل کی کشود
اقبال اپنے کلام میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بلند اشاردات بھی لائے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ "حبب الیّ من دنیاکم الطیب والنساء وجعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ" (مجھے دنیا کی چیزوں میں خوشبو اور عورتیں پسند کرائی گئی ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) اقبال نے اس حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے کہ "جنت" ماؤں کے قدموں تلے ہے، انہوں نے امومت کو رحمت
ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
پردے کی حمایت و تائید میں اقبال نے "خلوت" کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورت کو یکسو ہو کر اپنی صلاحیتوں کو نسلوں کی تربیت پر صرف کرنے اور اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کو موقع ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے سماجی خرابیوں سے الگ رہ کر اپنے گھر اور خاندان کی تعمیر کا سامان میسر آتا ہے، گھر کے پر سکون ماحول کے اندر اسے زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات کو سوچنے سمجھنے کی آسانیاں ملتی ہیں، اور اس طرح وہ اپنے اور دوسروں کے لیے بہتر کار گزرای کرسکتی ہے
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ولیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر
ایک بڑا معاشرتی سوال یہ رہا کہ مرد و زن کے تعلق میں بالا دستی (UPPER HAND) کسے حاصل ہو اس لیے کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں کوئی ایک فریق شریک غالب کی حیثیت ضرور رکھتا ہے، اور یہ اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہے کہ ہر شے اور ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر ایک ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے خصوصاََ مرد و زن کے تعلقات میں چند چیزوں میں مرد کو عورت پر فضلیت اور اولیت حاصل ہے، اور یہ بھی کسی نسل اور صنفی تفریق کی بنا پر نہیں بلکہ عورت کے حیاتیاتی، عضویاتی فرق اور فطرت کے لحاظ کے ساتھ اس کے حقوق و مصالح کی رعایت کے پیش نظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگرانی اور "قوامیت" ایسی چیز نہیں جو مرد اور عورت دونوں کی سپرد کر دی جاتی یا عورت کو دے دی جاتی، اقبال نے مغرب کے نام نہاد "آزادئ نسواں" کی پروا کیے بغیر عورت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی پرزور وکالت کی اور عورت کی حفاظت کے عنوان سے کہا؎
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگون میں ہے لہو سرد!
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
یہ نظم در حقیقت حدیث شریف "لن یفلح قوم ولو علیھم امراۃ" کی ترجمانی ہے، انہون نے اپنی دوسرے نظم میں فرمایا ؎
جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منتِ غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود
راز ہے اس کے تب غم کا یہی نکتہ شوق
آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکہ ابود و نبود
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہ شکل کی کشود
اقبال اپنے کلام میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بلند اشاردات بھی لائے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ "حبب الیّ من دنیاکم الطیب والنساء وجعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ" (مجھے دنیا کی چیزوں میں خوشبو اور عورتیں پسند کرائی گئی ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) اقبال نے اس حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے کہ "جنت" ماؤں کے قدموں تلے ہے، انہوں نے امومت کو رحمت