نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 238
جنت سے نکلنے کے بعد ایک دو دن یہیں قیام فرمایا تھا ، اس سر زمین نے ان کی آہ سحر گاہی اور نالہ نیم شبی کی صدا سنی ہے ، اس میں ان کے اشک ندامت جذب ہوئے ہیں ، اسکی زیارت کے لیے بلند مقام لوگ اور فضیل و بو سعید ، جنید و بایزید جیسے اولیا ہی ہمت کرتے یں ، آؤ ہم اس مقدس وادی میں نماز شوق ادا کریں جس سے مادی دنیا اب تک محروم تھے ۔
دونوں آگے بڑھتے ہیں ، اور دو آدمیوں کو نماز پڑھتے دیکھتے ہیں، جس میں ایک افغانی ہے اور ایک ترک امام ، جمال الدین افغانی ہیں ، اور ان کے مقندی سعید حلیم پاشا ، رومی اقبال سے کہتے ہیں کہ مشرقی ماؤں نے ان دونوں سے بڑھ کر کسی کو نہیں جنا ، ان کے فکر و نظر نے مشرقی سیاسیات کی کامیاب رہنمائی کی ، لیکن خاص طور سے افغانی نے مشرق کے مرد بیمار میں روح نشاط پھونک دی اور اک سرے سے دوسرے سرے تک بیداری کی لہر دوڑا دی ، سعید حلیم پاشا قلب درد مند اور فکرَ ارجمند کے مالک تھے ، ان کی روح جتنی بے تاب تھی اتنی ہی ان کی عقل روشن اور راہ یاب ، ان کے پیچھے پڑھی ہوئیں دو رکعتیں عمروں کی عبادت و ریاضت سے بڑھ کر تھیں ۔
سید جمال الدین نے سورہ النجم پڑھی ، زمان و مکان کی مناسبت ، امام کی کی پرسوز شخصیت قرآن کے جمال اور قرات کے موزونیت نے سوز و اثر کی عجیب فضا پیدا کر دی جس میں آنکھیں اشکبار اور دل بیقرار ہو اٹھے ، یہ مسحور کن قرات اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام و جبریئل علیہ السلام بھی سنتے تو لطف اندوز ہوتے اور اس کی داد دیتے ، ان کی آواز میں وہ تاثیر تھی کہ مردے جی اٹھیں قبروں سے "الا اللہ " کے نعرے بلند ہونے لگیں اور حضرت داؤد بھی سوز و مستی کا پیغام سنیں ، یہ قرات ہر پردگی کو آشکار اور اسرارِ کتاب کو بے حجاب کر رہی تھی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 239
اقبال کہتے ہیں کہ میں نے مغرب کے بعد بڑے ادب سے ان کے ہاتھ چومے اور رومی نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ سیلامی کسی منزل پر ٹھہرتا ہی نہیں اور دل میں تمناؤں کی ایک دنیا لئے پھرا کرتا ہے ، یہ مرد آزاد اپنے سوا کسی کا قائل نہیں ، قلندری و بے باکی اس کا پیشہ اور اس کی زندگی ہے ، میں اسی لئے اسے " زندہ رود" کہتا ہوں ۔
افغانی ان سے خاکدانِ عالم کے احوال پوچھتے ہیں اور خاک نثراد لیکن نوریں نہاد ۔۔ مسلمانوں ۔۔۔۔ کے بارے میں بیتابی سے سوال کرتے ہیں ، میں نے کہا کہ سیدی ! یہ امت جو تسخیر کائنات کے لئے اٹھی تھی اب دین و وطن کی کشمکش میں مبتلا ہے اب ایمان کی طاقت اور روح کی قوت اس میں باقی نہیں اور دین کی عالمگیری پر اسے چنداں اعتبار نہیں ، اس لئے قومیت و وطنیت کے سہارے لے رہی ہے ترک و ایرانی مئے فزنگ سے مخمور اور اس کے مکر و فریب سے شکستہ و رنجور ہیں ، اور مغربی قیادت نے مشرق کو زار و نزاد بنا دیا ہے اور دوسری طرف اشتراکیت دین و ملت کی عزت سے کھیل رہی ہے، ۔
روح در تن مردہ از ضعف یقیں
نا امیداز قوتِ دین مبیں ٖ!
ترک و ایران و عرب مستِ فزنگ
ہر کسے راور گلو شستِ فزنگ
مشرقی از سلطانی مغرب خراب
اشتراک از دین و ملت بردہ تاب
اٍفغانی نے یہ سب صبر و سکون لیکن حزن و الم کے ساتھ سنا اور وہ پھر یوں گویا ہوئے "حیار فزنگ نے اہل دین کو قوم و وطن کی پٹی پڑھائی وہ اپنے لئے تو ہمیشہ نئے مرکز اور نو آبادیات کی فکر میں رہتا ہے لیکن تم میں پھوٹ ڈالے رہنا چاہتا ہے ، اسلئے تمھیں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 240

ان کی حدود سے نکل کر آفاقی اور عالمی رول ادا کر نا چاہئے ، مسلمان کو ہر ایک ملک کو اپنا وطن اور ہر زمین کو اپنا گھر سمجھنا چاہئے ، اگر تم میں شعور ہے تو تمھیں جہانِ سنگ و خشت سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا ، دین انسان کو مادیات سے اٹھا کر اسے عرفان نفس سکھایا ہے جو انسان "اللہ " کو پالیتا ہے وہ پوری دنیا میں بھی نہیں سما سکتا اور کائنات بھی اسے تنگ محسوس ہوتی ہے، گھاس پھوس مٹی سے نکلتے ہیں ، اور مٹی میں ہی فنا ہو جاتے ہیں لیکن عظمت انسانیت کا یہ انجام نہیں ، آدم خاکی ہے ، لیکن اس کی روح افلاکی ہے ، انسان کا ظاہر زمین کی طرف مائل ہے لیکن اس کا اندروں کسی اور ہی عالم کا قائل ہے ، روح مادی پابندیوں سے گھبراتی ہے اور حدود و قیود سے نا آشنا ہی رہتی ہے ، جب سے وطنیت کی مٹی میں بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا دم گھٹنے اور اس کی سانس رکنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔ شاہین و شہباز پنجروں میں کیا آشیانوں میں بھی کبھی رہنا گوارا نہیں کرتے ۔
یہ مشتِ خاک جسے ہم وطن کہتے اور مصر و شام و عراق و یمن کا نام دیتے ہیں ، ان کے درمیان یقیناََ یہ رشتہ ہے ، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ یہیں تک بند ہو کر وہ جائیں اور آنکھیں کھول کر دنیا کو نہ دیکھیں ، سورج مشرق سے نکلتا ہے لیکن وہ شرق و غرب دونوں کو منور اور مسخر کر کے رہتا ہے ، اس کی فطرت حدود سے بے نیاز ہے ، اگرچہ اس کا طلوع و غروب حدود کے اندر ہی ہوتا ہے۔
چسیت دیں برخاستن از روئے خاک
تاز خود آگاہ گرد و جان پاک
می نگنجد گفت اللہ ہو
در حدود ایں نظام چار سو
گفت تن ورسو بخاک رہ گذر
گفت جاں پہنائے عالم رانگر
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
101-102

دل در سخن محمدی بند
اے پورِ علی زبو علی چند
چوں دیدہ راہ بین نداری
قائد قرشیً بہ از بخاری!
مختصر طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کے خیال میں موجودہ نظام تعلیم اپنے مقصد میں بالکل ناکام رہا ہے اور وہ ایسی نسل کو تربیت نہیں سے سکا ہے جو اپنی معلومات سے فائدہ اٹھاتی اور زندگی میں ہم آہنگی پیدا کرکے ایک صالح معاشرہ کی بنیاد رکھتی بلکہ اس کے برعکس وہ افریقہ اور قطب شمالی کی نامعلوم سرزمین سے واقف اور حیوانات و نباتات سے آگاہ ہے لیکن انسانیت کی پہچان اور خودی کے عرفان سے قطعاََ غافل! برق و بخارات، ایٹمی اور جوہری تونائی اور نیوکلیائی طاقت کا پتہ اس نے لگایا لیکن اپنی طاقت کا اندازہ اسے نہیں ہوا ہے، دنیا کو مسخر کرلیا لیکن اپنے اوپر قابو نہیں پاسکا وہ ہوا میں اڑتا اور پانی پر تیرتا ہے لیکن زمین پر انسان کی طرح چل نہیں سکتا۔
یہ سارا قصور نظام تعلیم کا ہے جس نے اس کا توازن غلط اور مزاج فاسد کردیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ شعاعِ شمسی کو گرفتار کرنے والا اپنا مقدر نہ چمکا سکا، نظام سیارگان کو جاننے والا کسی راہِ عمل پر نہیں پہنچ سکا اور سائنس کا محقق اپنے نفع نقصان کو بھی نہیں سمجھ سکا:۔
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
ڈھونڈھنے والا ستاروں کی گذر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
اخیر میں اقبال اس مسلم نوجوان کی تمنا کرتے ہیں جس کی جوانی بیداغ اور جس کی ضرب کاری ہو، جو جنگ میں شیر و پلنگ اور صلح میں حریر و پریناں ہو، جو رزم و بزم دونوں کا حق ادا کرے جو "نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو" کی مثال شخصیت کا مالک ہو جس کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوں جو فقر میں غنی اور امیری میں فقیر ہو، بوقت تنگدستی خودار و غیور اور بوقت فراغ کریم و حلیم ہو جو عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دیتا ہو، جو حلقہ یاراں میں ریشم کی طرھ نرم اور رزم حق و باطل مین فولاد کی طرح تند و گرم ہو، کبھی وہ شبنم ہو جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک پہنچتی ہے اور کبھی وہ طوفان جس سے دریاؤں کے دل دہل جائیں، اگر اس کی راہ میں کہستان آہیں تو سیلِ تند رو اور اگر محبت کی شبستان سامنے ہو تو "جوئے نغمہ خواں" بن جائے، جو صدیقؓ کا ایمانی جلال، علی مرتضیؓ کی قوت و فتوت، ابوذرؓ کا فقر و استغنا اور سلمانؓ کا صدق و صفا رکھتا ہو جس کا یقین، بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ہو، جو مومنانہ حکمت و فراست کا آئینہ دار اور ہمت مردانہ کا علمبردار ہو، جو شہادت کو اپنا کر حکومتوں کو ٹھکرا سکتا ہو جو ستاروں پر کمند ڈال سکتا اور نوامیس فطرت کو نخچیر بنا سکتا ہو، جو اپنی رفعت و عظمت میں فرشتوں کے لیے بھی باعث رشک ہو جس کا وجود دنیا میں کفر و باطل کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہو جس کی قیمت پوری کائنات بھی ن بن سکے اور جسے اس کے خالق و مالک کے سوا کوئی نہ خرید سکے جس کے مقاصد جلیلہ سے زندگی کی سطحیت اور زیب و زینت سے بلند تر کر چکے ہوں، و چنگ و رنگ اور نغمہ و آہنگ کے فریب سے نکل چکا ہو اور تہذیب جدید کے بلبل و طاؤس کی تقلید سے یہ کہہ کر انکار کر چکا ہو کہ۔
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ!
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
103-104​
اقبال اور فنون لطیفہ [1]


فنون لطیفہ کی حیثیت اقبال کی نگاہ میں کسی سنجیدہ اور مفید علم سے کم نہیں، وہ فن کاروں کو نسل انسانی کا معلم اور پیغمبرانہ انقلاب کا نقیب سمجھتے ہیں وہ فائن آرٹ کو تفریح و تسلی اور سستی افادیت کے لیے استعمال کرنے کے خلاف ہیں، اس کے برعکس انسانی خودی اور اس کی شخصیت کی تعمیر کا کام اس سے لینا چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ مظاہر و مناظر میں پھنس کر رہ جانے کے بجائے فنونِ لطیفہ کو دلوں تک اپنی رہ گزر بنانا چاہیے اور اسے تہ رسی در دل بینی اور حقیقت پسندی پر مبنی ہونا چاہیے دین و ادب، حکمت و ہنر کو انسان کی خفتہ صلاحیتوں اور نہفتہ امکانات کی علامت ان کی نگاہ میں یہ ہے کہ وہ انسانیت اور زندگی کے حقیقی مسائل سے صرف نظر کرلیتے ہیں۔
سرود و شعر و سیاست، کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] اضافہ از مترجم


اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کرسکیں تو سراپا فسوں و افسانہ
ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ
(دین و ہنر)
اسلام کے زیر اثر اقبال نے فنون لطیفہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کا صحیح مقام و پیام متعین کیا وہ فن کار کی تخلیق کے دل سے قائل اور قدرداں ہیں، لیکن فنون لطیفہ میں وہ شعر و ادب اور فلسفہ کو اولین مقام دیتے ہیں، نغمہ و آہنگ اور خشت و سنگ کو ان کے ہاں ثانوی درجہ حاصل ہے، اس لیے کہ وہ ان سب کی بنیاد فکر و خیال ہی کو قرار دیتے ہیں۔
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ خشت و سنگ سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے
اس آبجو سے کئے بحر بیکراں پیدا
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے گر جادواں پیدا
(تخلیق)
اقبال جس طرح اپنی الگ اور خاص اصطلاحات رکھتے ہیں یعنی علم و عشق، عقل و دل، فقر و خودی، قلندری و شاہینی وغیرہ اسی طرح ان کا جنون بھی باہوش ہے وہ جنوں کو خلوصِ عشق، دل کی لگن اور ایک جذبہ سرشاری سمجھتے ہیں جس سے مافوق الفطرت اور خارق عادت کرامات اور معجزات صادر ہوتے ہیں، جنوں ان کے ہاں جسم و روح کی کسی کام کے لیے متفقہ یکسوئی کا نام ہے اسی لیے وہ اپنی نظم مدنیتِ اسلام میں کہتے ہیں:۔
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایت اندیشہ و کمالِ جنوں!
زندگی کی طرح وہ فنون لطیفہ میں بھی جنوں کی کار فرمائی اور فن کار کا انتہائی خلوص اور ریاض پسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عشق و جنون کو صحرا کی فضا نہیں آبادی کی ہوا بھی راس آتی ہے:۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
105-106

کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں
کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بے گانہ
ہجوم مدرسہ بھی ساز گار ہے اس کو
کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ
(جنوں)
وہ اپنی ایک غزل میں کہتے ہیں۔
ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے
جس نے سئے ہیں تقدیر کے چاک
کاہل وہی ہے رندی کے فن میں
مستی ہے جس کی بے منت تاک
اقبال نے ایک مضمون میں اپنے ادبی اور فنی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فن کار کا پہلا فرض ہے کہ اپنی خودی، اپنے خاندان اور اپنے حقیقی یا روحانی وجود کا اثبات کرے اس لیے کہ اظہارِ "انا" اور اثباتِ وجود ہی سے " بقائے دوام" بھی ملتی ہے، اس کے ساتھ ہی اقبال نے لکھا ہے فن کار کو اپنی ذات سے چل کر کائنات تک پہنچنا چاہیے اور کثرت میں وحدت، جلوت میں خلوت اور اجتماعی بے خودی میں انفرادی خودی کا دامن ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ مادی کائنات مٹی کی طرح ہر شے کو جذب اور ہضم کر لینا چاہتی ہے چنانچہ ادب و فن کے وہی شاہکار دوامی اور حقیقی کہے جاسکتے ہیں جن میں مادیت سے روحانیت کی طرف گریز اور مادیت پر فتحمندی ملتی ہو، اقبال نے مزید لکھا ہے کہ فن کار کو حسن کے امکانات کا سراغ اپنے ہی اندر لگانا چاہیے نہ کہ خارجی اور ظاہری جمالیات کو اپنا مطمع نظر بنانا چاہیے، انہوں نے اس موقع پر ایک معنی خیز شعر لکھا ہے۔
حسن را از خود بروں جستن خطا ست
آنچہ می باسیت پیشِ ما کجا ست؟
یعنی جن کا کام "کیا ہے" پر قناعت نہیں بلکہ "کیا ہونا چاہیے" کی جستجو اور آرزو پیدا کر دینا ہے۔
یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں
کہ مرد حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود!
غمیں نہ کہ بہت دور ہیں ابھی باقی
نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود
(امید)
وجود کے بلند آہنگ اظہار و اعلان کے لیے نہیں اقبال خلوصِ عشق، سوزِ خودی، جذبہ زندگی اور عرفان نفس کو ضروری قرار دیتے ہیں:۔
اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود
کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقاماتِ وجود
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و نائے سرود
مکتب و مدرسہ جز درس نبودن ند ہند
بودن، آموز کہ ہم باشی وہم خواہی بود
(وجود)
اثباتِ وجود خودی سے پہلے فن کار کو اپنی پہچان ضروری ہے، پھر تعمیری خودی کے لیے نیاز میں ناز پیدا کرنا اور قطرہ کا روکشِ دریا ہونا لازم ہے، اقبال کی لطافتِ حس دیکھئے کہ وہ نماز میں سجدے کو بیخودی اور قیام کو خودی کا اظہار سمجھتے ہیں اور عبادت کی محویت میں بھی عبدیت کیا انفرادیت اور اس کا تیکھا پن برقرار رکھنا چاہتے ہیں:۔
غلط نگر ہے تری چشم آشنائے ناز اب تک
ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک
ترا نیاز نہیں آشنا ئے ناز اب تک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک
گستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک
(رومی)
اقبال ہر اس فن و ہنر کے مخالف ہیں جو زندگی سے دور لے جاتا ہے اور انفرادیت کو کچلتا ہے اور جس میں انسان تابع مہمل اور کائنات گوہر مقصود ہوتی ہے، وہ موجودہ تمثیل، تھیٹر اور ڈرامہ کے اسی لیے خلاف ہیں کہ وہ مصنوعی پن، انقالی اور بہروپ کے سوا کچھ نہیں جس میں انسان "تماشا" اور کائنات تماش بین بن جاتی ہے:۔
تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود
حیات کیا ہے اسی کا سرور و سوز و ثبات!
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
107-108

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام
اسی کے نور سے پیدا ہیں تیری ذات و صفات
حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ!
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے
رہا نہ تو، تو نہ سوزِ خودی مہ سازِ حیات
(نیاز)
وہ مصوری (PAINTING ) میں انسانی شخصیت کی نمود اور تعمیر انسانیت کے کسی پیام کا وجود ضروری سمجھتے ہیں اور اسی لیے مشرقی مصوری کی روحانیت کے قائل اور مغربی تجریدیں مصوری (ABSTRACT ART) سے نفور ہیں، مصوری میں انسان شائستہ اور ارفع جذبات و احساسات کی نقش آرائی اور صورت گری انہیں پسند ہے اور سطحی اور دقتی خیالات کے وہ قائل نہیں مشرقی مصوری کا ازلی سوز و سرور اس کی روحانیت انہیں دل سے پسند ہے۔
مجھ کو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی
فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
(مصور)
رددوسرود صورت و آہنگ اور نغمہ و زخمہ میں بھی انہیں وہ آتش نوائی اور شعلہ نفسی پسند ہے جس میں دل کی آنچ ہو اور رگِ ساز میں صاحب ساز کا لہو رواں ہو اور مغنی صرف لہجہ کے اتار چڑھاؤ اور تال سُر اور نغمہ کے زیرو بم کا نمائندہ نہ ہو بلکہ صاحب دل بھی ہو۔
آیا کہاں سے نالہ نے میں سرورِ مے
اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے
دل کیا ہے اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے
کیوں اس کی ایک نگاہ الٹتی ہے تخت کے
کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات
کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے
(سرور)

اقبال اس نغمہ جاوداں، لافانی آہنگ اور اس مغنی آتش نفس کو ڈھونڈتے ہیں جس کی صدا "جلوہ برق فنا" کی جگہ" کرشمہ و دوام و بقا" ہو جس سے دل زندہ بیدار ہو جائے اور ستاروں کا وجود پگھل جائے جو انسانیت کے لیے مساوات کا پیامی ہو اور جس سے پوری کائنات بیدار ہوجائے:۔
مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے
تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود
جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی
منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود!

اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام
حرام میری نگاہوں میں نائے و چنگ و رباب

نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود
وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

اقبال مصوری اور موسیقی کو غلاموں کے فنون لطیفہ میں شمار کرتے ہیں جن سے فطرت انسانی طرح طرح کی تکلفات کی غلام بن جاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ نغمہ و موسیقی زندگی کی بجائے موت کا پیغام دیتے ہیں اور آدمی کو زار و ناتواں بناتے اور دنیا سے بیزار کردیتے ہیں، اس سے دل کا سوز و گداز ختم ہو کر ایک غم آگیں کیفیت سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ اس سے وہ غم نہیں ملتا جو دوسرے تمام غموں کو بھلا دیتا ہے بلکہ اس کا غم یاس و قنوط کی پیداوار ہوتا ہے۔
اقبال کہتے ہیں نغمہ کو وہ سیلِ تندرو ہونا چاہیے کہ جو غموں کا خاتمہ کردے جو جنوں پروردہ اور خون دل میں حل کردہ ہو، ان کے خیال میں نغمہ کی انتہا یہ ہے کہ وہ بے صوت و صدا ہوجائے:۔
می شناسی در سرود است آں مقام
کاندرو بے حرف می روید کلام
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
109-110


وہ کہتے ہیں جو نغمہ و آہنگ معنی و پیام نہیں رکھتا وہ مردہ اور افسردہ ہے اور معنی مولانا روم کے الفاظ میں وہ ہیں جو آدمی کو اپیل کریں نہ کہ دوسرے خارجی نقش و نگار پر مائل کریں:۔
معنی آں باشد کہ بستاند ترا
بے نیاز از نقش گرداند ترا
معنی آں بنود کہ کورو کرکند
مردرا بر نقش عاشق ترا کند!
اس کے بعد ان کا روئے سخن "مصوری" کی طرف ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مصوری میں نہ ابراہیمی فطرت ہے نہ آذری صنعت بلکہ اس میں سراسر اوٹ پٹانگ جزئیات کی تصویر کشی اور مجموعی حیثیت سے موت کی نقش گری ملتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مصور خود کسی عقیدہ و پیام پر مطمئن نہیں اس لیے اس میں نہ لذتِ تحقیق ہے نہ قوتِ تخلیق، اس کا اپنا کوئی ذوق نہیں بلکہ وہ عوامی ذوق کا اجیر اور کرائے کا مزدور ہے۔ وہ حسن کو مظاہر قدرت اور مناظرِ فطرت میں ڈھونڈتا ہے لیکن وہ تو ایک داخلی کیفیت ہے۔
جو فن کار انسان اور کائنات کو ایک سطح سے دیکھتا اور مٹی کی پیداوار سمجھتا ہے وہ اپنے ساتھ انصاف نہیں کرتا، فن کار اور اہل کمال میں کچھ وہ باتیں بھی ہوتی ہیں جو غیر معمولی اور معجزانہ کہی جاسکتی ہیں۔
خویش را آدم اگر خاکی شمرد
نوریزدان ور ضمیر او بمرد
چوں کلیمے شد بروں از خویشتن
دست او تاریک و چوبِ اورسن
زندگی بے قوتِ اعجاز نیست!
ہر کسے دانندہ ایں راز نیست!
اقبال کہتے ہیں کہ فن کار کو فطرت کی بازیافت ہی نہیں بلکہ اپنے اندر کے مافوق الفطرت عناصر سے فطرت پر اضافہ بھی کرنا چاہیے اور حیات و کائنات میں ایک دوسرے حیات و کائنات کی طرح نو ڈالنا چاہیے اور اپنی روح کے وفور اور فراوانی سے زندگی کے ہر خلا کو پر کردینا چاہیے:۔
زاں فراوانی کہ اندر جانِ اوست
ہر تہی را پر نمودن شانِ اوست
فطرت پاکش عیار خوب و زشت
صنعتش آئینہ دارِ خوب و زشت
(زبور عجم)
فن کار کے لیے تسخیر کائنات سے پہلے تسخیر ذات اور تعمیر خودی ضروری ہے، انہی بنیادوں پر فرد اپنی تکمیل کے بعد وجود کائنات سے کا اہم جز بن جاتا ہے اور رفتہ رفتہ کونین پر چھا جاتا ہے۔
منہ پا وربیابانِ طلب و سست
نخستین گیر آں عالم کہ درتست
اگر زیری، زخود گیری زبر شو
خدا خواہی؟ بخود نزدیک ترشو
بہ تسخیر خود افتادی اگر طاق!
ترا آساں شو و تسخیر آفاق
(گلشنِ راز جدید)
موسیقی و مصوری کے مقابلے پر اقبال فن تعمیر (ARCHITECTURE) کے اس مناسب حدود میں قائل ہیں اور ان کا یہ خیال ذاتی نہیں اسلامی فکر کا عطیہ ہے فن تعمیر میں بھی وہ اس عمارت سازی کو مستحسن سمجھتے ہیں جس کے پیچھے کوئی پیغام اور کس کی بنیادوں میں عشق کا استحکام ہو وہ اندلس جاکر قصر الحمراء دیکھتے ہیں لیکن اس سے متاثر نہیں ہوتے اس کے برعکس مسجد قرطبہ کو دیکھ کر ان کی روح پھڑک اٹھتی اور وجدان جھوم اٹھتا ہے، وہ خود لکھتے ہیں:۔
"الحمراء کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہ ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی[1]۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] اقبال نامہ 322/2
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
241-242


جان نگنجدور حیات اے ہوشمند
مرد حربیگانہ از ہر قید و بند
گرچہ از مشرق برآید آفتاب
باتجلی ہائے شوخ و بے حجاب
فطرتش از مشرق و مغرب بری ست
گرچہ ادازروئے نسبت خاوری است
افغانی نے مزید فرمایا کہ اشتراکیت اس یہودی کی دماغی اپج ہے جس نے حق و باطل کو خلط ملط کردیا ہے جس کا دماغ کافر لیکن دل مومن تھا، یہ مغرب کا المیہ ہے کہ اس نے روحانی قدریں اور غیبی حقائق کھو کر انہیں معدہ اور مادہ میں تلاش کرنا چاہا حالانکہ روح کی قوت و حیات کا تعلق جسم سے نہیں لیکن شیوعیت بطن و معدہ اور تن و شکم سے آگے بڑھتی ہی نہیں مارکس (KARL MARX) کا یہ مذہب مساواتِ شکم پر قائم ہے حالانکہ انسانی اخوت جسمانی مساوات پر نہیں بلکہ ہمدردی و مواسات اور محبت و مروت پر تعمیر ہوتی ہے:۔
غریباں گم کردہ اند افلاک را
در شکم جویند جانِ پاک را!
رنگ و بو از تن نگیز و جانِ پاک
جزبہ تن کارے نداردا اشتراک
دینِ آں پیغمبر حق ناشناس
پرمساواتِ شکم دارد اساس
تا اخوت را مقام اندر دل است
بیخ اددر دل نہ در آب و گل است
افغانی نے ملوکیت کے بارے میں فرمایا، ملوکیت کا جسم و ظاہر بہت خوشنما ہے لیکن اس کا دل تاریک اور روح نحیف و نزار اور اس کا ضمیر بالکل مردہ ہے، وہ شہد کی مکھی کی طرح ہر پھول پر بیٹھتی ہے اور اس کا رس چوس لیتی ہے، اس سے پھولوں کے رنگ میں فرق نہیں آتا لیکن ان کی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور وہ کاغذی پھول بن کر رہ جاتی ہے، ملوکیت بھی اسی طرح افراد و اقوام کو اپنا شکار بناتی اور ان کا خون چوس کر ہڈی چمڑا چھوڑ دیتی ہے ___________ ملوکیت اور اشتراکیت کے لیے حرص و ہوس، خدا بیزاری اور مردم آزادی، قدر مشترک اور (COMMON FACTOR) کی حیثیت رکھتی ہیں، زندگی اگر اشتراکیت میں "خروج" ہے تو ملوکیت میں "خراج" اور انسان ان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پارہ زجاج! اشتراکیت علم و فن اور مذہب کی قاتل ہے تو ملوکیت عوم کی دشمن، مادیت دونوں کا مشترکہ مذہب ہے، دونوں کا ظاہر معصوم لیکن باطن مجرم ہے۔
ہر دورا جاں ناصبور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب
زندگی ایں را خروج آنرا خراج
درمیانِ این دو سنگ آدم زجاج
ایں بہ علم و دین و فن آرد شکست
آں برد جانر از تن، ناں راز دست
غرق دیدم ہر دور اور آب و گل
ہر دور اتن روشن و تاریک دل
زندگانی سوختن با ساختن
در گلے تخم دلے انداختن!
افغانی کہتے ہیں کہ قرآن کی تعلیمات دوسری ہیں اور مسلمانوں کا علم دوسرا ہے ان کی زندگی کا شرارہ بجھ چکا اور ان کا حضورً سے تعلق ختم ہوچکا ہے، آج مسلمان اپنی زندگی اور معاشرے کی اساس قرآنی ہدایات پر نہیں رکھتا اس کے نتیجے میں وہ دین و دنیا دونوں میں پسماندہ رہ گیا ہے، اس نے قیصر و کسریٰ کا نظام استبداد توڑ دیا لیکن خود ملوکیت کا علمبردار بن گیا اور عجمی سیاسیات کو اپنا لیا اور زندگی کا نقطہ نظر ہی بدل ڈالا:۔
در دل او آتش سو زندگہ نیست
مصطفےٰ در سینہ اورتدہ نیست
بندہ مومن ز قرآں بر نخورد
در ایاغِ او نہ مے یدیم نہ درد!
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
243-244


خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سرِ تخت ملوکیت نشست
افغانی ملت روسیہ کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم نے بھی مسلمانوں کی طرح قیصر و کسریٰ کا نظام ختم کیا ہے تمہیں مسلمانوں سے عبرت لینا چاہیے اور زندگی کے معرکے میں عزم و ثبات سے قائم رہنا چاہیے اور ملوکیت و وطنیت کے اصنام کو شکستہ کرنے کے بعد انہیں اب بھولے سے بھی یاد نہیں کرنا چاہیے، آج دنیا کے اس امت کی ضرورت ہے جو وعدہ و وعید رحمت و شدت، نرمی و گرمی دونوں رکھتی ہو، تم مشرق سے روحانیت و مذہبیت لو کیونکہ مغربی ہذہب پرستی کھوکھلی ہوچکی ہے، اب ان گڑے مردوں کو ہرگز مت اکھیڑنا تم نے خدایانِ باطل سے انکار کرکے مرحلہ نفی طے کر لیا ہے، اب "الا اللہ" کی اثباتی مہم بھی تمہیں سر انجام دینا چاہیے اس طرح تمہارا کارنامہ مکمل اور سفر تمام ہوسکے گا، تمہیں عالمی نظام کی فکر ہے تو اس کے لیے پہلے محکم اساس تلاش کرو اور وہ اساس دن و عقیدہ کے سوا ور کچھ نہیں۔
تم نے خرافیات عالم کی سطر سطر مٹا دی ہے اس لیے تمہیں اب قرآن کا حرف حرف پڑھنا چاہیے تمہیں معلوم ہوگا کہ قرآن ملوکیت و آمریت کا جانی دشمن اور سرمایہ داری کی موت ہے اور غلاموں، مزدوروں اور مجبوروں کے لیے زندگی، وہ ضرورت سے زائد سرمایہ کو غریبوں پر خرچ کرنے کی تاکید کرتا ہے، وہ سود کو حرام اور تجارت کو حلال کرتا اور قرض حسنہ اور صدقہ جاریہ پر لوگوں کو ابھارتا ہے، کیا دنیا کے فتنوں اور بے رحمیوں کا سرچشمہ سود نہیں؟ قرآن کہتا ہے کہ زمین سے نفع حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ملکیت خدا کی ہے اس لیے وہ امین اور وارث ہے، مالک مطلق نہیں (وانفقو مما جعلکم مستخلفین فیہ) بادشاہوں نے حق کا علم سرنگوں کردیا اور خدا کی دنیا ان سے پامال ہوگئی ہے، قرآن حق و صداقت کی آواز بلند کرتا اور کہتا ہے کہ ابن آدم کے لیے زمین ایک وسیع دستر خوان ہے اور کل نوع انسانی ایک خاندان (ما خلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ) اسی لیے جب قرآنی حکومت قائم ہوئی تو غلو پسند راہب اور سنیاسی چھپ گئے اور پاپائیت اور کلیسا کا طلسم ٹوٹ گیا، قرآن صرف ایک کتاب ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بہت کچھ ہے، وہ انسان کو بدلتا ہے اور پھر کائنات کو بدل دیتا ہے، یہ وہ زندہ کتاب ہدایت و سعادت ہے جو قلب کائنات کی دھڑکن اور مشرق و مغرب کا مامن ہے، اس سے مشرق و مغرب دونوں ہی کی تقدیر بندھی ہوئی اور انسانیت کا مستقبل وابستہ ہے۔
تم نے نیا قانون و آئین بنایا ہے، اس لیے تمہیں چاہیے کہ دنیا پر ذرا قرآن کی روشنی میں بھی ایک نظر ڈال کر دیکھو کہ زندگی کی حقیقت کو سمجھ سکو:۔
باسیہ فاماں ید بیضا کہ داد؟
مژدہ لا قیصر و کسریٰ کہ داد؟
جز بقرآں ضیغمی روباہی ست
فقرِ قرآں اصل شاہنشاہی است
فقر قرآں اختلاطِ ذکر و فکر
فکر را کامل ندیدم جزبہ ذکر
چیست قرآں خوجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ بے ساز و برگ
رزق خود راز سمیں بردن رواست
ایں متاع بندہ و ملکِ خدا است
نقش قرآں تادریں عالم نشست
نقشہائے کاہن و پاپا شکست
فاش گویم آنچہ دردل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیداست ایں
زندہ و پایندہ و گویا است ایں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
245-246


اندر و تقدیر ہائے غرب و شرق
سرعت اندیشہ پیدا کن چوں برحق
بامسلماں گفت جاں برکف نبہ
ہر چہ از حاجت فزوں داری بدہ!
آفریدی شرع و آئینے دگر!
اندکے بانورِ قرآنش نگر!
ازبم وزیر حیات آگہ شوی
ہم زتقدیر حیات آگہ شوی [1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] جاوید نامہ 91-63


اقبال دَرِ دولت پر [1]

ڈاکٹر محمد اقبال کی پوری زندگی عشق رسولً اور یاد مدینہ سے معمور تھی، ان کا زندہ جاوید کلام ان دونوں کے تذکرے سے بھرا ہوا ہے لیکن زندگی کے آخری ایام میں یہ پیمانہ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینہ کا نام آتے ہی اشک محبت بے ساختہ جاری ہوجاتے، وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ یقیناََ مدینۃ الرسول میں حاضر نہ ہوسکتے لیکن اپنے مشتاق اور بے تاب دل نیز اپنی قوت تخیل اور زور کلام کے ساتھ انہوں نے حجاز کی وجد انگیز فضاؤں میں بار بار پرواز کی اور ان کا طائرِ فکر ہمیشہ اسی آشیانہ یا آستانہ پر منڈلاتا رہا۔
انہوں نے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنے دل، اپنی محبت، اپنے اخلاص اور اپنی وفا کی نذر پیش کی اور آپ کی مخاطب کرکے اپنے جذبات و احساسات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] یہ اس عربی تقریر کا ترجمہ ہے جو "اقبال فی مدینۃ الرسول" کے عنوان سے ؁1956 میں دمشق ریڈیو اسٹیشن سے نشر کی گئی تھی، ترجمہ مولوی محمد الحسنی مدیر البعث الاسلامی کے قلم سے ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
247-248


اپنی ملت اور اپنے معاشرہ کی دل گداز تصویر کھینچ کر رکھ دی ایسے مواقع پر ان کی شاعری کے جوہر خوب کھلتے تھے اور معانی کے سوتے پھوٹ پڑتے تھے، وہ حقائق جن کی زمام مضبوطی سے انہوں نے گرفت میں رکھی تھی اس وقت بے حجاب دبے نقاب ہوکر سامنے اتے اور اپنا خوب رنگ دکھاتے۔
بحرنے می تو اں گفتن تمنائے جہانے را
من از شوق حضوری طول و ادم دا متانے را
اس موضوع پر ان کا کلام سب سے زیادہ جاندار اور طاقتور، موثر ان کے جذبات کا صحیح ترجمان، ان کے تجربات کا نچوڑ، ان کے عہد کی تصویر اور ان کے نازک ترین احساسات کا آئینہ دار ہے۔
آگے ان کے جو اشعار پیش کئے جائیں گے ان میں انہوں نے عالمِ خیال میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا سفر کیا ہے اور اس تصور کے ساتھ وہ قافلہ کے ہمراہ نرم ریگستانی زمین پر رواں دواں ہیں، ذوق حضوری اور شوق و محبت میں یہ ریت ان کو ریشم سے بھی زیادہ نرم محسوس ہورہی ہے، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ہر ذرہ دل بن کر دھڑک رہا ہے، وہ ساربان سے کہتے ہیں کہ ان دھڑکتے ہوئے دلوں کا خیال کرے اور نرم روی اختیار کرے۔
چہ خوش صحرا کہ شامش صبح خنداست
شبش کوتاہ و روز او بلند است
قدم اے راہ رو آہستہ تر نہ
چو ماہر ذرہ اور دردمند است
حدی خواں کا نغمہ سن کر ان کی آتش شوق اور تیز ہونے لگتی ہے، دل کی جراحتیں تازہ ہوجاتی ہیں، ان کے پورے وجود میں حرارت اور زندگی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور ان کا سازِ دل دردو اثر میں ڈوبے ہوئے موثر اور بلیغ اشعار کے ساتھ نغمہ زن ہونے لگتا ہے۔
پھر وہ اسی عالم تصور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواجہ شریف میں حاضر ہوتے ہیں، درود و سلام پڑھتے ہیں، محبت و شوق کی زبان ان کے دل کی ترجمان بن جاتی ہے اور وہ اس مبارک و قیمتی ساعت سے فائدہ اٹھا کر اپنا حالِ دل بیان کرتے ہیں، امت اسلامیہ اور عالم اسلام کے حالات، اس کے مسائل اور مشکلات، اس کی آزمائشیں اور امتحانات، نیز مغربی تہذیب اور مادی فلسفوں اور تحریکوں کے سامنے اس کی سپر افگنی اور بے بسی اپنے وطن میں اس کی غریب الوطنی اور خود اپنی قوم میں اپنے پیغام کی ناقدری کا شکوہ کرتے ہیں، کبھی ان کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں اور کبھی دل کی بات زبان پر آجاتی ہے۔
اس مجموعہ اشعار کا نام انہوں نے "ارمغان حجاز" رکھا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ پورے عالم اسلام کے لیے بہت مبارک تحفہ اور نسیم حجاز کا ایک مشکبار جھونکا ہے،
بادِ نسیم آج بہت مشکبار ہے
شاید ہوا کے رخ پر کھلی زلفِ یار ہے
اقبال کا یہ روحانی سفر اس زمانہ میں ہوا جب ان کی عمر ساٹھ سال سے متجاوز تھی، اور ان کے قویٰ کمزور ہوگئے تھے، اس سن میں جب لوگ آرام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور گوشہ نشینی پسند کرتے ہیں، ان کو جس چیز نے اس طویل و پرمشقت سفر پر آمادہ کیا اس کو فرمانِ محبت کی تعمیل اور مقصد زندگی کی تکمیل کے سوا ور کیا کہا جاسکتا ہے؟
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
249-250

بایں پیری رہ یثرب گرفتم
نوا خواں از سرور عاشقانہ
چوآں مرغے کہ در صحرا سرشام
کشاید پر بہ فکرِ آشیانہ
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جب کہ میری زندگی کا آفتاب لبِ بام ہے اگر میں نے مدینہ منورہ کو (جو روح کا اصل مسکن اور مومن کا حقیقی نشیمن ہے) قصد کیا تو اس میں تعجب کی کون سے بات ہے، جس طرح شام کے وقت چڑیاں اپنے اپنے آشیانہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہیں، اسی طرح میری روح بھی اب اپنے حقیقی آشیانہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہے۔
مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان جب ان کی اونٹنی اپنی رفتار تیز کردیتی ہے تو وہ اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ سوار بہت خستہ و بیمار ہے، لیکن ناقہ ان کے اس مشورہ کو قبول نہیں کرتا وہ ایسا مستانہ وار قدم رکھتا ہے، گویا یہ ریگ زار نہیں بلکہ ریشم کا ایک فرش بچھا ہوا ہے۔
سحربا ناقہ گفتم نرم تر رو
کہ راکب خستہ و بیمار و پیراست
قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی
بپایش ریگ ایں صحرا حریر است
اب یہ کاروانِ مدینہ درود و سلام کی سوغات لیے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے، اس پرکیف فضا میں وہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش ان کو اس گرم ریت پر ایک ایسا سجدہ میسر ہو جو ان کی پیشانی کے لیے نقش دوام بن جائے وہ اپنے دوستوں کو بھی اسی سجدہ شوق کا مشورہ دیتے ہیں۔
چہ خوش صحرا کہ دروے کا روا نہا
درودے خواندو محمل براند
بہ ریگ گرم اس آور سجودے
جبیں را سوزتا داغے بماند
ذوق و شوق کے زیادہ غلبہ ہوتا ہے تو عراقی اور جامی کے اشعار بے ساختہ ان کی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں، لوگ حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں کہ یہ عجمی آخر کس زبان میں اشعار پڑھ رہا ہے، جو سمجھ میں تو نہیں آتے لیکن دل کو درد و محبت سے اس طرح بھر دیتے ہیں کہ آدمی کو کھانے پینے کا بھی ہوش باقی نہیں رہتا اور پانی کے بغیر بھی اس کی تشنگی دور اور خستگی کافور ہوجاتی ہے۔
امیر کارواں آں اعجمی کیست
سرود او بآہنگ عرب نیست
زند آں نغمہ کز سیرابی او
خنک دل در بیابانے تواں زیست
راستہ کی دشوایوں اور مشقتوں میں ان کو لطف آنے لگتا ہے، شپ بیداری کم خوابی اور بے آرامی سے سرور حاصل ہوتا ہے، وہ اس راستہ کو طویل نہیں سمجھے اور جلد پہنچنے کی آرزو نہیں کرتے بلکہ اپنے ساربان سے اس کی خواہش کرتے ہیں کہ وہ اس سے بھی زیادہ دور دراز راستہ سے لے چلے تاکہ اس بہانہ سے ذوق و شوق کی مدت بھی کچھ دراز ہوسکے اور انتظار کا لطف (جو عشاق کا زادِ سفر اور محبین کا سرورِ نظر سمجھا گیا ہے) دوبالا ہوسکے۔
غم راہی نشاط آمیز ترکن
فغانش راجنوں انگیز ترکن
بگیر اے سارباں راہِ درازے
مرا سوزِ جدائی تیز ترکن
اسی سرور و شوق اور کیف و مستی کے ساتھ وہ سارا راستہ طے کرتے ہوئے مدینہ طیبہ پہنچتے ہیں، اور اپنے رفیق سفر سے کہتے ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی زلف کے اسیر ہیں، آج ہم کو اپنے دل کی مراد بر لانے اور اپنے آقا اور محبوب کے قدموں پر اپنی پلکیں بچھانے کو موقع ملا ہے، اس لیے آج ہمیں اپنی آنکھوں پر سے پابندی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 251
ہٹا لینی چاہئے اور اس سیلاب اشک کو جو کہ عرصہ سے امنڈنے کے لئے بے چین ہے ، تھوڑی دیر کے لئے آزاد چھوڑ دینا چاہیے ۔
بیا اے ہم نفس باہم بنالیم
من و تو کشتہ شانِ جمالیم
دو حفے برمرادِ دل بگوئیم
بپائے خواجہ چشماں رابمالیم
وہ اپنے اوپر رشک کرتے ہوئے کہتے ہیں ، کہ کیا خوشی نصیبی اور مقام مسرت ہے کہ یہ سعادت اور نعمت ان کے نصیب میں آئی ، اور اس گدا کو اپنی نا اہلی کے باوجود اس دربار شاہی میں نوازا گیا جہاں بڑے بڑے دانشوروں اور اورنگ نشینوں کو توفیق باریابی حاصل نہ ہو سکی ۔
حکیماں رابہا کمتر نہا وند
بناداں جلوہ مستانہ دادند
چہ خوش بختے چہ خرم روزگارے
در سلطاں بہ درو یشے کشاوند
لیکن اس سرورو مستی اور جذب و شوق میں بھی وہ امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کو فراموش نہیں کرتے اور پوشی صدق بیانی اور قادر الکلامی کے ساتھ اس کا درد دل کتاب کی طرح کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں ۔
مسلماں آں فقیر کج کلا ہے
رمیداز سینئہ اوسوز آ ہے
دلش نالد چرانا نالد نداند
نگاہے یار رسول اللہ نگا ہے
وہ کہتے ہیں کہ اس امت کی بڑی آزمائش یہ ہے کہ یہ بام بلند سے گری ہے اور جو جتنی اوپر سے گرتا ہے ، اتنی ہی اس کو چوٹ آتی ہے ۔
چہ گویم زاں فقیرے درد مندے
مسلمانے بہ گوہرا رجمندے
خداایں سخت جاں رایا ربادا
کہ افتاد است از با، بلندے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 252
وہ کہتے ہیں کہ اس امت کی پریشاں روزگاری اور اسکی بے نظمی کی بڑی وجہ یہ کہ جماعت ہے اور امام نہین ، افراد ہیں مگر کوئی نظام نہیں ۔
ہنوز ایں چرخ نیلی کج خرام است
ہمنوزایں کارواں دو راز مقام است
زکار بے نظام اوچہ گویم
تومی دانی کہ ملت بے امام است
وہ کہتے ہیں کہ اس کے خون میں اب وہ "تب تاب" اور اس کے انرد وہ مروم خیزی کی صلاحیت باقی نہیں رہی جو اس کا طرہ امتیاز تھا، اس عرصہ سے اس کی نیام بے شمشیر اور اس کی "کشت ویران" لالہ و گل سے محروم ہے :-
نماندآں تاب و تب در خوں نابش
نروید لالہ از کشست خرابش
نیام اوتہی چوں کیسئہ او
بطاق خانہ ویراں کتا بش
وہ کہتے ہیں کہ یہ امت اپنے سرمایہ آرزو اور ذوقِ جستجو سے محروم ہو کر رنگ و بو میں گرفتار ہو گئی ہے ، اس کے کان نرم و نازک نغموں کے خوگر ہو گئے ہیں ، اور مردانِ حُر کی آواز اس کے لئے نامانوس ہو چکی ہے :-
دلِ خودرا اسیر رنگ و بو کرد
تہی از ذوق و شوق آرزو کرد
صیفر شاہبازاں کم شناسد
کہ گو ششِ باطنین پشہ خو کرد
اب نہ ۔۔۔ اس کی آنکھ میں یقین کا نور اور عشق کا سرور ہے نہ اس کا دل کسی کی محبت میں مخمور ، اس کا سینہ کسی کی یاد سے معمور ہے ، وہ حضوری سے بہت دورمنزل مقصود سے نا آشنا اور مہجور ہے ۔
بچشم اونہ نورونے سرور است
نہ دل در سینہ اونا صبور است
خدا ایں امتے رایار بادا
کہ مرگِ اوز جانِ بے حضور است
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 253
پھر وہ اس کے شاندار ماضی کا موازنہ(جب اس پر لطف و عنایت کی نظر خاص تھی ) اس داغ دار حال سے کرتے ہیں ، وہ بڑی بلاغت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کہتے ہیں کہ جس کو آپ نے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا، اور ناز و نعم میں رکھا تھا ، وہ آج ان صحراؤں میں اپنا رزق تلاش کرنے اور دربدر بھٹکنے پر مجبور ہے ۔
سپرس از من کہ احوالش چناں است
زمینش بد گہرچوں آسماں است
برآں مرغے کہ پروردی بانجیر
تلاش دانہ اور صحرا گران است
وہ لادنییت کے اس طوفان بلا خیز کا ذکر کرتے ہیں ، جو عالم اسلام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ، ٍڈاکٹر محمد اقبال (جو خود فلسفہ سیاسیات اور اقتصادیات کے غواص تھے اور اس کا کوچہ کوچہ ان کا دیکھا ہوا تھا ) اچھی طرح سمجھتے تھے کہ عالم اسلام میں لادنییت کا سب سے بڑا راستہ خالص مادہ پرستانہ نقطہ نظر "روحانی خلا" اور "قلب کی برودت " ہے ، مسرفانہ اور ارستقراطی زندگی سے اسمیں اور مدد مل رہی ہے ، وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ لادنییت کے اس سیلاب اور مادہ پرستانہ معاشی فلسفہ کا مقابلہ اگر کسی چیز سے ہو سکتا ہے تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی زاہدانہ اور عاشقانہ زندگی ہے ، وہ مسلمانوں کے لئے اس مثالی زندگی کی آرزو کرتے ہیں ، جو زندگی کے ہر شعبہ پر اثر انداز ہو ، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسی زندگی وجود میں آجائے تو ساری دنیا اس کے سامنے سر جھکانے اور اس کا احترام کرنے پر مجبور ہو گی ۔
دگرگوں کر لادینی جہاں را
زآثار بدن گفتند جاں را
ازاں فقرے کہ باصدیق دادی
بشورے آدرایں آسودہ جاں را
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 254
وہ مسلمانوں کے تنزل کا سبب فقر و افلاس اور مادی وسائل کی کمی کو نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اس کی تو جیہ اس "شعلہ زندگی " کی افسردگی سے کرتے ہیں ، جو کسی عہد میں ان کے سینہ کے اندر فروزاں تھا ۔
وہ کہتے ہیں ، جب یہ درویش اور فقیر ایک اللہ کے لئے سجدہ ریز تھے اور کسی اور کا اقتدار اور اختیار تسلیم نہیں کرتے تھے ، اس وقت شہنشاہوں کا گریبان ان کے ہاتھ میں تھا ، لیکن جب یہ شعلہ سرد ہو گیا تو ان کو درگاہوں اور خانقاہوں میں پناہ لینی پڑی ۔
فقراں تابمسجد صف کشیدند
گریباں شہنشاہاں در یدند
چو آں آتش درون سینہ افسرد
مسلماناں بدر گا ہاں خزیدند
وہ مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کا یک ایک ورق الٹ کر دیکھتے ہیں ، اس میں ان کو جگہ جگہ ایسی چیزیں ملتی ہیں ، جن سے ایک مسلمان کا سر شرم و ندامت سے جھک جائے ، بہت سی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں ، جن کو نبوت محمدی ، اسکی تعلیمات اور اس کی اعلیٰ قدروں اور اصولوں سے کوئی مناسبت نہیں ، ان کو بہت سی مشرکانہ باتیں غیر اللہ کی پرستش ، جابر و ظالم بادشاہوں اور حکمرانوں کی خوشامد اور ان کی مدح سرائی کے ایسے نمونے نظر آتے ہیں ، جن سے ایک غیور اور خودار انسان کی پیچانی عرق آلود ہونے لگتی ہے ، اقبال خاموشی کے ساتھ ایک ایک چیز دیکھتے جاتے ہیں ، اور آخر میں بڑی صراحت اور اعتراف ۔۔۔۔ لیکن بڑی بلاغت اور اختصار کے ساتھ کہتے ہیں کہ سچی بات تو یہ کہ ان پستیوں کے ساتھ ہم ہرگز آپ کے شایان شان نہ تھے ، ہمارا انتساب آپ کی طرف آپکی شان میں کھلی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 255
بے ادبی ہے ۔
ننالم از کسے می نالم از خویش
کہ ماشایان شانِ تو نبو دیم
وہ عالم اسلام پر جوان کا دیکھا بھالا اور جانا پہچانا ہے ، احتیاتاََ دوبارہ ایک نظر ڈالتے ہیں ، اور اپنے جائزہ کا حاصل یہ بتاتے ہیں کہ ایک طرف خانقاہوں کا سبو خالی ہے ، دوسری طرف دانش گاہیں ، جدت و جرات سے عاری ہیں ، ان کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ طے کئے ہوئے سفرکو بار بار طے کرتی رہیں ، ادب اور شاعری مردہ و بے روح اور دلی جذبات سے محروم ہیَ ۔
سبوئے خانقاہاں خالی ازمے
کند مکتب رہِ طے کردہ راطے
زبزم شاعراں افسردہ رفتم
نواہا مرادہ ِِبیروں افتداز نے
وہ کہتے ہیں کہ میں نے دنیا میں دنیائے اسلام کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن وہ مسلمان مجھے نہ ملا جو موت کسے لرزہ براندام ہونے کی بجائے موت اس سے لرزہ براندام ہواور جو خود موت کے لئے پیام موت ہو ۔
بآں بالے کہ بخشیدی پریدم
بسوز نغمائے کود تپیدم
مسلمانے کہ مرگ ازوے بلرزد
جہاں گردیدم و اور اندیدم
وہ مسلمانوں کی پریشاں خاطری ، آشفتہ سری اور آوارہ گردی کا راز فاش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر وہ فرد یا جماعت جو دل تو رکھتی ہے لیکن دلبر نہیں رکھتی ہے ، محبت رکھتی ہے لیکن محبوب سے نا آشنا ہے ، وہ دلجمعی اور اطمینان سے ہمیشہ محروم رہتی ہے ، اس کی تمام قوتیں ضائع ہوتی ہیں ، اور اس کی جدودجہد کبھی ایک منزل اور
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 256
ایک مرکز پر قائم نہیں رہتی ۔
شبے پیش خدا بگر یستم زار
مسلماناں چرا زا رند و خوارند
ندا آمدنمی دانی کہ ایں قوم
ولے دارند و محبوبے ندارند
لیکن ان تمام حوصلہ شکن حالات کے باوجود وہ مسلمانوں سے بد دل اور خدا کی رحمت سےمایوس نہیں ، بلکہ اس مایوسی ، دوسرے پر اعتماد کرنے اور ہر چیز کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے کی تلقین کرنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہیں ، اور بڑے درد سے کہتے ہیں کہ حرم کے نگہبان بُت خانہ کے پاسبان بن بیٹھے ہیں ، ان کا یقین مردہ و مضمحل اور ان کی نگاہ مستعار اور رہین منت اغیار ہے ۔
نگہبان حرم معمار دیر است
یقینش مردہ او چشمش بغیر است
زانداز نگاہ اوتوں دید
کہ نو میداز ہمہ اسباب خیر است
وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اگرچہ بے خیل و سپاہ ہیں ، لیکن ان کا ظرف بادشاہوں سے زیادہ عالی اور نگاہ سلاطین سے زیادہ بلند ہے ، اگر تھوڑی دیر کے لئے ان کو ان کا مقام دے دیا جائے تو ان کا یہ جمال جہاں افروز جلال عالم گیر کا منظر پیش کر سکتا ہے ۔
مسلماں گرچہ بے خیل و سپا ہے است
ضمیر او ضمیر بادشاہ ہے است
اگر اور امقامش باز بخشند
جمال او جمال بے پناہ ہے است
وہ اپنا اور اس عصر کا ذکر کرتے ہیں جس سے وہ برسر پیکار ہیں ، اور جو قدم قدم پر ان کے لئے ایک مستقل آزمائش اور امتحان ہے۔
گہے رفتم کہے مستانہ خیزم
چہ خوں بے تیغ و بے شمشیر ریزم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 257
نگاہ التفاتے برسرِ بام
کہ من با عصر خویش اندر ستیزم
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال کی پوری زندگی عصر جدید سے کشمکش میں گزری انھوں نے مغربی تہذیب اور مادی فلسفہ کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اس پر آگے بڑھ کر سخت تنقید کی ، اس کو چیلنج کیا ، اور بڑٰی جرات ، روشن ضمیری اور گہرائی کے ساتھ اسکو کھوٹا ثابت کیا اور اس پردہ فریب کو چاک کیا ، جس نے اس کی اصلی اور مکروہ شکل کو نگاہوں سے چھپا رکھا تھا، وہ حقیقت میں نئی نسل کے مربی ، یقین و خود اعتمادی ، نیز اپنی اور اسلامی شخصیت کے مکمل شعور کے حامل اور مادی بنیادی اور مادی طرز فکر کے زبردست منکر تھے ، اور ان کو یہ کہنے کا حق حاصل تھا ۔
چو رومی در حرم دادم اذاں من
ازو آمو ختم اسرارِ جاں من
بدورِ فتنہ عصر اُو
بہ دورِ فتنہ عصر رواں من
وہ مغربی علوم سے اپنی بغاوت ، اس کے جال سے بچ نکلنے اور اپنے عقید و ایمان اور خصوصیات کی حفاظت کا ذکر کرتے ہوئے بڑا قلندرانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے مغربی فلسفہ و تہذیب کے آتش نمرود میں شانِ ابراہیمی کا مظاہرہ کیا ، وہ فخر و مسرت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ انھوں نے ان علوم کے مغز کو حاصل کر لیا پوست کو پھینک دیا ، اور یہی نہیں بلکہ کامیابی کے ساتھ اس کے جال سے باہر بھی آگئے اور اس کے طلسم ہو شربا کو پاش پاش کر دیا ، جس نے مشرق و مغرب دونوں کی نظر بندی کر رکھی ہے ۔
طلسمِ علم حاضر را شکستم
زبودم دانہ و دامش کسستم
خداداند کہ مانندِ براہیم
نہ ناراوچہ بے پروا نشستم
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top