ناعمہ عزیز
لائبریرین
صفحہ نمبر 258
وہ اپنی اس زندگی کا ذکر کرتے ہیں ، جو یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں گزری تھی ، اور جہاں خشک و افسردہ کتابوں ، دقیق فلسفیانہ مباحث ، جمال فتنہ انگیز اور دل آویز خوشنما مناظر کے سوا انھیں اور کچھ نہ مل سکا ، اگر کوئی چیز ملی تو وہ خود فراموشی تھی جس نے ان کو ان کے وجود سے بھی محروم کر دینا چاہا،
بہ افرنگی بتاں دل باختم من
زتاب ویریاں بگدا ختم من
چناں از خویشتم بیگانہ نہ بودم
چو دیدم خویش رانشنا ختم من
اب بھی جب ان کو ان دنوں کی ویرانی و بے نوری یاد آتی ہے ، ان کی طبیعت پر وحشت و انقباض طاری ہو جاتا ہے ۔
وہ بڑے جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ میخانہ مغرب میں بیٹھ کر مجھے سوائے دردِ سری کے اور کچھ نہ ملا ، اس سے زیادہ بے سوز ، بے نور اور بے کیف شب و روز مجھے اپنی پوری عمر میں یاد نہیں ، جو ان دانشمندان فزنگ کے ساتھ گزرے ۔
مے از میخانہ مغرب چشیدم
بجانِ من کہ دردِ سر خریدم
نشستم بانکو یانِ فرنگی
ازاں بے سوز تر روزے ندیدم
پھر پڑے درد کے ساتھ کہتے ہیں میں تو آپ کے ایک فیض کا پروردہ ہوں ، " اہل دانش " اور " اہل خرد" کی یہ ساری نکتہ آدرنییاں اور لن ترانیاں میرے لئے دردِ سر کا سامن اور وبالِ جان میں ہیں ، میں تو صرف آپ کے در کا فقیر ہوں آپ کی گلی کا سائل ہوں مجھے کسی کے سنگ آستاں پر سر پھوڑنے اور قسمت آزمانے کی کیا ضرورت ؟
فقیزم از ت وخواہم ہر چہ خواہم
دل کو ہے خراش از برگ کاہم
مراد رس حکیماں درد سر داد
کہ من پروردہ فیض نگا ہم
وہ اپنی اس زندگی کا ذکر کرتے ہیں ، جو یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں گزری تھی ، اور جہاں خشک و افسردہ کتابوں ، دقیق فلسفیانہ مباحث ، جمال فتنہ انگیز اور دل آویز خوشنما مناظر کے سوا انھیں اور کچھ نہ مل سکا ، اگر کوئی چیز ملی تو وہ خود فراموشی تھی جس نے ان کو ان کے وجود سے بھی محروم کر دینا چاہا،
بہ افرنگی بتاں دل باختم من
زتاب ویریاں بگدا ختم من
چناں از خویشتم بیگانہ نہ بودم
چو دیدم خویش رانشنا ختم من
اب بھی جب ان کو ان دنوں کی ویرانی و بے نوری یاد آتی ہے ، ان کی طبیعت پر وحشت و انقباض طاری ہو جاتا ہے ۔
وہ بڑے جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ میخانہ مغرب میں بیٹھ کر مجھے سوائے دردِ سری کے اور کچھ نہ ملا ، اس سے زیادہ بے سوز ، بے نور اور بے کیف شب و روز مجھے اپنی پوری عمر میں یاد نہیں ، جو ان دانشمندان فزنگ کے ساتھ گزرے ۔
مے از میخانہ مغرب چشیدم
بجانِ من کہ دردِ سر خریدم
نشستم بانکو یانِ فرنگی
ازاں بے سوز تر روزے ندیدم
پھر پڑے درد کے ساتھ کہتے ہیں میں تو آپ کے ایک فیض کا پروردہ ہوں ، " اہل دانش " اور " اہل خرد" کی یہ ساری نکتہ آدرنییاں اور لن ترانیاں میرے لئے دردِ سر کا سامن اور وبالِ جان میں ہیں ، میں تو صرف آپ کے در کا فقیر ہوں آپ کی گلی کا سائل ہوں مجھے کسی کے سنگ آستاں پر سر پھوڑنے اور قسمت آزمانے کی کیا ضرورت ؟
فقیزم از ت وخواہم ہر چہ خواہم
دل کو ہے خراش از برگ کاہم
مراد رس حکیماں درد سر داد
کہ من پروردہ فیض نگا ہم