اشتیاق علی
لائبریرین
صفحہ نمبر 227
عالم میں یہ شعر پڑھتا ہوا سنا جاتا ہے
فما الناس بالناس الذین عھدتہم
ولا الدار بالدار التی کنت اعرف
(اب نہ وہ میرے شناسا لوگ ہیں ، اور نہ میرا جانا پہچانا وہ گھر ہی رہ گيا ہے)
بنی مخزوم کا یہ سردار اپنے وطن میں اجنبی اور اپنے گھر میں پردیسی بن گیا ہے وہ اس مکہ کو بھی نہیں پہچان پا رہا ہے ، جہاں کا وہ معزز شہری اور رئیس تھا ، وہ سوچتا ہے کہ کاش وہ بیت اللہ ، وہ حطیم ، وہ حجر اسود ، وہ بیر زمزم ، وہ قریشی سرداروں کی مجلسیں دکھائی دیتیں جن میں وہ مسلمانوں کو ستاتے اور چھیڑتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جن میں وہ بھی شریک ہوتا تھا ، وہ اسلامی مکہ کو دیکھ کر کبھی سوچتا ہے کہ میں کہیں غلطی سے راستہ تو نہیں بھول گیا ہوں؟
اسے اپنی گزشتہ زندگی یاد آتی ہے جب وہ محمد کے دین کو عربی قومیت اور قریشی عصبیت کے لئے سب سےبڑا خطرہ سمجھتا اور اسلامی نظام کو نسب و وطن کے جاہلی نظام اور قریشی مملکت کے محدود دائرے کے لئے چیلنج جانتا تھا۔
وہ عزت و فضیلت کو صرف عربوں کی میراث سمجھتا اور دوسروں کو عجمی اور گنوار قرار دیتا تھا جو کسی قدر دانی اور کسی رحم و کرم کے مستحق نہ تھے ، وہ اپنے خیالات کی وجہ سے جاہلیت کے دفاع میں اسی لئے سب سے آگے تھا ، وہ اسلام کے دوررس انقلابی نتائج کو پہلے ہی بھانپ گیا تھا کہ اسے آخر اس حد تک کامیابی ہو گی کہ جاہلیت اپنے مرکز ہی میں غریب الدیار اور نا آشنائے روزگار ہو جائے گی،
عالم میں یہ شعر پڑھتا ہوا سنا جاتا ہے
فما الناس بالناس الذین عھدتہم
ولا الدار بالدار التی کنت اعرف
(اب نہ وہ میرے شناسا لوگ ہیں ، اور نہ میرا جانا پہچانا وہ گھر ہی رہ گيا ہے)
بنی مخزوم کا یہ سردار اپنے وطن میں اجنبی اور اپنے گھر میں پردیسی بن گیا ہے وہ اس مکہ کو بھی نہیں پہچان پا رہا ہے ، جہاں کا وہ معزز شہری اور رئیس تھا ، وہ سوچتا ہے کہ کاش وہ بیت اللہ ، وہ حطیم ، وہ حجر اسود ، وہ بیر زمزم ، وہ قریشی سرداروں کی مجلسیں دکھائی دیتیں جن میں وہ مسلمانوں کو ستاتے اور چھیڑتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جن میں وہ بھی شریک ہوتا تھا ، وہ اسلامی مکہ کو دیکھ کر کبھی سوچتا ہے کہ میں کہیں غلطی سے راستہ تو نہیں بھول گیا ہوں؟
اسے اپنی گزشتہ زندگی یاد آتی ہے جب وہ محمد کے دین کو عربی قومیت اور قریشی عصبیت کے لئے سب سےبڑا خطرہ سمجھتا اور اسلامی نظام کو نسب و وطن کے جاہلی نظام اور قریشی مملکت کے محدود دائرے کے لئے چیلنج جانتا تھا۔
وہ عزت و فضیلت کو صرف عربوں کی میراث سمجھتا اور دوسروں کو عجمی اور گنوار قرار دیتا تھا جو کسی قدر دانی اور کسی رحم و کرم کے مستحق نہ تھے ، وہ اپنے خیالات کی وجہ سے جاہلیت کے دفاع میں اسی لئے سب سے آگے تھا ، وہ اسلام کے دوررس انقلابی نتائج کو پہلے ہی بھانپ گیا تھا کہ اسے آخر اس حد تک کامیابی ہو گی کہ جاہلیت اپنے مرکز ہی میں غریب الدیار اور نا آشنائے روزگار ہو جائے گی،