یہ تھی جناب۔ اردو محفل سے ہی ملی ہے۔
بنیاد کچھ تو ہو
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گرسے شکوہء بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف تھا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میںتو کچھ رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجہ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلاد کچھ تو ہو
جب خونبہا طلب کریں ،بنیاد کچھ تو ہو
گرتن نہیں ، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاو ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد کچھ تو ہو
بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
منٹگمری جیل 13 اپریل 55ء