حسان خان

لائبریرین
تذَروی ابهری کی 'یوسف و زُلیخا' یا 'حُسن و یوسف' نامی مثنوی کی بیتِ اوّلین:
به نامِ آن که رُویِ دشمن و دوست
به هر جانب که باشد جانبِ اوست

(تذَروی ابهری)
اُس [خدا] کے نام سے کہ دُشمن و دوست کا رُخ [خواہ] جس جانب بھی ہو، اُس [ہی] کی جانب ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اِلٰهی گوهرِ مقصود بِنْما
به طُورِ دل تجلّایی بِفرما

(حشمت)
اے میرے خدا! [مجھ کو] گوہرِ مقصود دِکھاؤ۔۔۔ [میرے] دل کے کوہِ طُور پر اِک تجلّی فرماؤ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اِلٰهی گوهرِ مقصود بِنْما
به طُورِ دل تجلّایی بِفرما

(حشمت)
اے میرے خدا! [مجھ کو] گوہرِ مقصود دِکھاؤ۔۔۔ [میرے] دل کے کوہِ طُور پر اِک تجلّی فرماؤ۔
میرے خیال سے اِس بیتِ مثنوی کا قافیہ عیب دار ہے۔ ماہرینِ فنِّ شاعری کیا فرماتے ہیں؟
محمد وارث محمد ریحان قریشی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"نظر بِنْما گهی بر رُودِ ورزاب،
که آغازش همه شور است و طُغیان،
ولی آید چو بر شهرِ دوشنبه
شود آرام‌طبع و سُست‌جریان."

(لایق شیرعلی)
کسی وقت دریائے ورزاب پر نظر ڈالو۔۔۔ کہ اُس کا آغاز تمام کا تمام شورش و طُغیان ہے۔۔۔ لیکن جب وہ شہرِ دوشنبہ کے نزدیک آتا ہے تو وہ آرام طبع اور سُست حرَکت ہو جاتا ہے۔

× شاعر کا تعلق تاجکستان سے تھا، اور «دوشنبہ» تاجکستان کے دارالحکومت کا نام ہے۔
 
میرے خیال سے اِس بیتِ مثنوی کا قافیہ عیب دار ہے۔ ماہرینِ فنِّ شاعری کیا فرماتے ہیں؟
محمد وارث محمد ریحان قریشی
ماہر تو نہیں ہوں مگر میرے نزدیک آپ کا خیال درست ہے۔ اس بیت میں ایطائے جلی واقع ہے جو کہ قافیہ موجود ہی نہ ہونے کے مترادف ہے۔ مثنوی میں قافیہ کے متعلق غزل جیسی سختی روا نہیں رکھی جاتی مگر مذکورہ بیت میں اسے نظرانداز کرنا مشکل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشق است که در جانت هر کیفیت انگیزد
از تاب و تبِ رومی تا حیرتِ فارابی

(علامه اقبال لاهوری)
عشق ہے کہ جو تمہاری جان میں، رُومی کے تب و تاب سے لے کر فارابی کی حیرت تک، ہر ایک کیفیت کا مُحرِّک بنتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نوایِ من به عجم آتشِ کُهن افروخت
عرب ز نغمهٔ شوقم هنوز بی‌خبر است

(علامه اقبال لاهوری)
میرا نوا نے عجم میں آتشِ کُہَن روشن کر دی۔۔۔ [لیکن] عرب میرے نغمۂ اشتیاق سے ہنوز بے خبر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
باز می‌آید به گوش آوازِ آذربایجان
شادی آرد نغمهٔ مُمتازِ آذربایجان

(ابوالقاسم لاهوتی)
کان میں دوبارہ آذربائجان کی آواز آ رہی ہے۔۔۔ آذربائجان کا مُمتاز نغمہ شادمانی لاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فکرِ شنبہ تلخ دارد جمعۂ اطفال و تو
پیر گشتی و ہماں در فکرِ فردا نیستی


صائب تبریزی

چھٹی کے بعد والے دن کی فکر سے بچوں کا چھٹی کا دن بھی تلخ ہی گذرتا ہے اور تُو کہ جو بوڑھا ہو چکا ہے (افسوس) تجھے ابھی تک کل کی کوئی فکر نہیں ہے۔

(شنبہ یعنی ہفتہ۔ شعر میں جمعے اور ہفتے کی مثال ہے آج کل اسے اتوار اور سوموار سمجھنا چاہیئے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
روزِ وصلِ دوست‌داران یاد باد
یاد باد آن روزگاران یاد باد

(حافظ شیرازی)
مُحِبّوں کے روزِ وصل کی یاد بخیر!۔۔۔ یاد بخیر! اُن زمانوں کی یاد بخیر!
 

حسان خان

لائبریرین
حافظ شیرازی کی ایک بیت پر تخمیس:
سَیر و گشتِ لاله‌زاران یاد باد،
افت و خیزِ مَی‌گُساران یاد باد،
عشرتِ فصلِ بهاران یاد باد،

«روزِ وصلِ دوست‌داران یاد باد،
یاد باد آن روزگاران، یاد باد!»

(صدرالدین عینی)
لالہ زاروں کی سَیر و گشت کی یاد بخیر!۔۔۔ مَے گُساروں کے گِرنے اُٹھنے کی یاد بخیر!۔۔۔ موسمِ بہاراں کی عشرت کی یاد بخیر!۔۔۔ مُحِبّوں کے روزِ وصل کی یاد بخیر!۔۔۔ یاد بخیر! اُن زمانوں کی یاد بخیر!

× مصرعِ ثانی میں 'افت' کا تلفظ ماوراءالنہری فارسی میں 'اَفْت'، جبکہ ایرانی فارسی میں 'اُفْت' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خیز ساقی که وقتِ کار آمد
دورِ گُل، موسمِ بهار آمد

(محمد فضولی بغدادی)
اے ساقی! اُٹھو کہ وقتِ کار آ گیا۔۔۔ دَورِ گُل اور موسمِ بہار آ گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
چنان هجرش دل و دستم شکسته
که کِلکم در بَنان نتْوان نهادن

(نظیری نیشابوری)
اُس کے ہجر نے اِس طرح میرے دل و دست کو توڑ دیا ہے، کہ [اب] میری انگُشتوں میں قلم نہیں رکھا جا سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز بس داغِ جنون آشُفته مغزم
سرم بر پرنیان نتْوان نهادن

(نظیری نیشابوری)
داغِ جُنوں نے میرے مغز کو اِتنا زیادہ مُضطرِب و آشُفتہ کر دیا ہے کہ [اب] میرا سر ریشم پر [بھی] نہیں رکھا جا سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تاجکستانی شاعرہ «زُلفیه عطایی» کی نظم «در آرام‌گاهِ علّامه اقبال» (۱۹۹۸ء) کی ابتدائی تین ابیات:
"شاعرِ دردآشنا، ای زنده‌رود،
بر تو از رُودِ دلم بادا دُرود!
رازدانِ سیرتِ اَسرار تو،
گوهرِ پُرمایهٔ افکار تو.
مو به مو بِکْشاده‌ای گیسویِ شرق،
از تو افزود آبرویِ رُویِ شرق."

(زُلفیه عطایی)
اے شاعرِ درد آشنا! اے زندہ رُود!۔۔۔ میرے دریائے دل (یا میرے سازِ دل) کی طرف سے تم پر سلام ہو!۔۔۔ سیرتِ اَسرار کے رازدان تم ہو!۔۔۔ افکار کے گوہرِ گراں مایہ تم ہو!۔۔۔ تم نے سرزمینِ مشرق کے گیسو کو مُو بہ مُو کھولا ہے۔۔۔ تم سے سرزمینِ مشرق کے چہرے کی آبرو میں اضافہ ہوا ہے۔
× زندہ رُود = زندہ دریا؛ علّامہ اقبال کا ایک تخلُّص
 

حسان خان

لائبریرین
تاجکستانی شاعرہ «زُلفیه عطایی» کی نظم «در آرام‌گاهِ علّامه اقبال» (۱۹۹۸ء) سے دو ابیات:
"مذهبِ تو - مذهبِ آدم‌گری،
لال مانده پیشِ تو دیو و پری.
پندِ تو هم‌وزنِ طُومارِ عجم،
خِشتِ حَرفت گشت دیوارِ عجم."

(زُلفیه عطایی)
[اے علّامہ اقبال!] تمہارا مذہب مذہبِ انسانیت تھا۔۔۔ جِنّ و پری تمہارے پیش میں گُنگ رہ گئے تھے۔۔۔ تمہاری نصیحت 'طُومارِ عجم' کے مساوی و ہم وزن ہے۔۔۔ تمہارے حَرف کی خِشْت (اینٹ) دیوارِ عجم بن گئی۔

× شاعرہ نے 'طُومارِ عجم' کو اشارتاً 'اوَستا' کے لیے استعمال کیا ہے، جو زرتُشتیوں کی قدیم مُقدّس کتاب ہے۔ علاوہ بریں، 'طُومار' مُعاصر ماوراءالنہری فارسی میں 'تعویذ' کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرد اگر عاشق شود، زرتاج مانَد بر سرش
زن اگر عاشق شود، از شرم سوزد پَیکرش

(زُلفیه عطایی)
مرد اگر عاشق ہو جائے تو وہ اپنے سر پر تاجِ زر رکھتا ہے۔۔۔ [لیکن] اگر عورت عاشق ہو جائے تو شرم سے اُس کا پَیکر جل جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جُز لفظِ فارسی من لفظِ دِگر ندانم،
بی لفظِ خود بِمیرم، چون تشنه دُور از آب.

(زُلفیه عطایی)
میں زبانِ فارسی کے بجز کوئی دیگر زبان نہیں جانتی۔۔۔ میں اپنی زبان کے بغیر مر جاؤں گی، [ویسے ہی] جیسے تشنہ آب سے دُور [مر جاتا ہے]۔

× شاعرہ کا تعلق تاجکستان سے ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نظمِ بیدل ره‌نمایِ عقل‌هاست
در معانی شعرِ صائب برملاست

(عبدالله قادریِ مُمتاز)
بیدل کی شاعری عقلوں کی رہنما ہے۔۔۔ معانی کے لحاظ سے صائب کی شاعری برمَلا ہے۔

× شاعر کا تعلق تاجکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
من غُبارِ دامنِ خورشید دارم آرزو
خنده می‌سازد خِرد این سعیِ بی‌جایِ مرا

(نادره بیگم اندیجانی 'مکنونه')
مجھ کو دامنِ خورشید کے غُبار کی آرزو ہے۔۔۔ عقل میری اِس کوششِ بے جا پر ہنستی ہے۔

× شاعرہ کا تعلق ماوراءالنہر سے تھا۔
 
Top