امیرِ بُخارا کے زندان میں اپنے برادر «حاجی سراج» کے قتل ہونے پر کہے گئے مرثیے کا بندِ اول:
دوستان! فاجعهٔ سخت بِیامد به سرم
رفت از این فاجعه روح از تن و نور از بصرم
خبری آمد و رفت از دل و جان طاقت و هوش
بعد از این کَی شود از هوش و دل و جان خبرم؟!
خبر این است، که با تیغِ ستم کُشته شدهست
دادرم - قُوّتِ روح و دل و قُوتِ جگرم
از هُجومِ المم قُوّتِ فریاد نمانْد
تا چُنین دشنهٔ بیداد فلک زد به سرم
جگرم آب شد و ریخت ز دو چشمِ ترم
جگرم، وا جگرم، وا جگرم، وا جگرم!
(صدرالدین عینی)
۱۹۱۸ء
اے دوستو! میرے سر پر ایک سخت مُصیبت آئی ہے۔۔۔ اِس مُصیبت کے باعث روح میرے تن سے اور نُور میری چشم سے چلا گیا۔۔۔ اکِ خبر آئی، اور میرے دل و جان سے طاقت و ہوش چلا گیا۔۔۔ [اب] اِس کے بعد مجھ کو اپنے ہوش و دل و جان کی کب خبر ہو گی؟!۔۔۔ خبر یہ ہے کہ تیغِ ستم سے میرا برادرِ - میری روح و دل کی قوّت اور میرے جگر کی غذا - مقتول ہو گیا ہے۔۔۔ جب سے فلک نے اِس طرح کا خنجرِ ظُلم میرے سر پر مارا، آلام کے ناگہانی حملے سے مجھ میں قُوّتِ فریاد نہ رہی۔۔۔ میرا جگر آب ہو کر میری دو چشمِ تر سے بہہ گیا۔۔۔ وائے میرا جگر! وائے میرا جگر! وائے میرا جگر!