یہ مراسلہ اس لڑی کے موضوع سے وابستہ نہیں ہے اس لیے صاحبان سے پیشگی معذرت ہے۔
میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ وسعتِ ظرف وسعتِ علم سے منسلک ہے۔ آپ لاکھ کسی کو سمجھاتے رہیں جس کا علم محدود ہو کہ معاملہ اس طرح نہیں اس طرح بھی ہو سکتا ہے وہ کبھی اسے تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ اس بیچارے نے دیکھا ہی اتنا ہوتا ہے۔ آپ کنویں کے مینڈک کو جتنا مرضی سمجھا لیں کہ سمندر اتنا وسیع ہے وہ کبھی اسے سمجھ نہ پائے گا بلکہ سمجھانے والے کو مشکوک نظروں سے دیکھے گا۔ علم کی وسعت انسان کے ظرف میں اضافہ کرتی ہے اور شدت پسندانہ نظریات کو تحلیل کرتی ہے۔ اس لیے جو شخص جب تک علم حاصل کرنے کی جستجو نہیں کرے گا اور خود کو انسان کی بجائے عقل کل تصور کرے گا وہ اپنی محدود دنیا سے کبھی باہر نہیں نکلے گا کوئی چاہے اسے لاکھ سمجھاتا رہے۔
دوسری طرف میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ محض مخصوص نظریات اور شخصیات کی کتابیں پڑھنے کو علم حاصل کرنا نہیں کہتے۔ مخصوص عینک لگا کر مخصوص شخصیات حالات اور واقعات پڑھ کر اپنے خیالات کو محض کنفرمیشن کے ذریعے مزید پختہ اور شدت پسندی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ اسے اب بت پرستی کہہ لیں عالم پرستی کہہ لیں یا کچھ بھی اور لیکن یہ خدا پرستی نہیں ہے کیونکہ خدا نے قران میں کئی بار انسان کو بار بار غور و فکر کرنے کو کہا ہے۔ یعنی خدا کو بھی بت بنا کر مت پوجو بلکہ خدا کو خدا مان کر اور جان کر اس کی عبادت کرو۔ تصدیق بالقلب کبھی بھی اندھے ایمان سے حاصل نہیں ہو سکتی۔