نیرنگ خیال

لائبریرین
اوئے بیوقوفا
جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اہل قلم اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں۔ میں ایک کونے میں بیٹھا دیکھتا رہتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرا دل کرتا ہے میں بھی اس موضوع پر قلم کشائی کروں۔ اس کے محرکات و مدرکات کا بنظر غائر جائزہ لوں، اور رائی کے وزن برابر اپنا ما فی الضمیر بھی احباب کی نذر کروں۔ مگر ایسا ہو نہیں پاتا۔ وقت گزر جاتا ہے۔ واقعہ پر وقت دھول ڈال دیتا ہے اور ہم سب آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجائے جس میں دین کو بنیاد بنا کر وحشت، بربریت اور دیوانگی دکھائی گئی ہو تو اس کا احاطہ کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔اب ہر آدمی تو عالم ہے۔ بات کریں تو کس سے؟ ہر آدمی دانشور ہے، گفتگو ہو تو کس سے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس علم و فرزانگی کے دور میں بات کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ کوئی بیوقوف ہو تو بات کرنی اور سمجھانی آساں بھی ہو۔
میں نے قرآں اپنے باپ سے پڑھا ہے۔ بابا نے قرآن پڑھایا نہیں، ہمارے اندر اتارنے کی کوشش کی ہے۔ کسی لفظ سے پہلے الف آجائے، ی آجائے، ن آجائے تو معنی پر کیا فرق پڑتا ہے، یہ مجھے بابا نے سمجھایا۔ اور ایسا سمجھایا کہ آج تک یاد ہے۔ بابا الفاظ کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے جاتے، اور پھر کہتے ان کو یاد کرنے کی کوشش نہ کرو،تم پڑھتے رہو گے یہ خود بخود تمہیں یاد ہونا شروع ہوجائیں گے اور پھر بعد میں سمجھ میں آنے لگیں گے۔ایک بات جو بابا کہا کرتے تھے، کہ قرآن کے اپنے لہجے ہیں، اپنی آواز ہے۔ قرآن اپنا انداز تخاطب بدل لیتا ہے۔ جب وہ کافروں سے بات کرتا ہے۔ جب وہ مومنوں سے بات کرتا ہے۔ جب وہ جزا کی بات کرتا ہے۔ اور جب وہ سزا کی بات کرتا ہے۔ کبھی وہ تمام بنی نوع انسان سے خطاب کرتا ہے اور کبھی کسی مخصوص گروہ سے۔ میں حیران ہوتا تھاکہ قرآن تمام انسانوں سے بھی کلام کرتا ہے، کافروں کو بھی مخاطب کرتا ہے! یعنی اس پر بھی ہماری اجارہ داری کہیں نہیں۔ بابا کی ان باتوں سے ایک بات تو میرے ذہن میں بیٹھ گئی کہ قرآن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ ظاہر ہے جس کتاب کا خطاب بنی نوع انسان سے ہو، اس کے موضوعات کی آفاقیت کس قدر واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگرمذاہب کے لوگ بھی قرآن کو پڑھتے ہیں، اور اس سے اپنے مسائل کا حل بھی پاتے ہوں گے۔ واللہ اعلم
بابا قرآن اکثر فجر کے بعد پڑھاتے۔ اماں اس دوران ناشتہ بنایا کرتیں۔ چائے چولہے پر دھری ہوتی۔ ہماری توجہ سپارے سے بھٹک کر چائے کی طرف جاتی کہ اب ملی چائے کہ اب ملی۔ بابا غصہ ہوجاتے۔ ڈانٹتے۔ کئی بار کہہ دیتے جاؤ پہلے چائے پی لو۔ ناشتہ کر لو۔ ہمیں علم ہوتا تھا کہ اب اٹھ گئے تو چھٹی۔ اب کل ہی پڑھیں گے۔ خیر انہی دنوں جب میں قرآن پڑھ رہا تھا، یہ آیت بھی آگئی۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون۔ سورۃ الحجر آیت 9
جب بابا مطلب سمجھا رہے تھے، تو میں نے کہا کہ یعنی قرآن کی حفاظت ہم نہ بھی کریں تو خیر ہے؟
اس پر باباغصے میں آگئے اور تند لہجے میں مجھے کہنے لگے۔
اوئے بیوقوفا! تو ں اینوں پڑھ لا، سمجھ لا۔ ایناں بڑا تیرے واسطے۔ اے بندے ایس جوگے ہندے تے اللہ اتوں حکم اتاردا کہ ایدی حفاظت میں کراں گا؟
(بیوقوف! تم اس کو پڑھ لو، سمجھ لو۔ یہ تمہارے لیے بہت ہے۔ اگر انسان اس قابل ہوتے تو مالک کو قرآن میں یہ اعلان نہ کرنا پڑتا کہ اس کی حفاظت میں خود کروں گا)۔

کبھی کسی واقعے کی اطلاع ملتی ہے۔ کبھی کوئی وحشیانہ قصہ سننے کو ملتا ہے۔ دل کانپ جاتا ہے۔ روح دہل جاتی ہے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ قرآن کی عزت و ناموس کی حفاظت انہوں نے کیوں اپنے سر لے لی ہے؟جب ہمارے لیے قرآن پڑھنا اور سمجھنا اولین شرط ٹہرا تو ان کے سر حفاظت کا کام کس نے ڈالا؟ یہ کس لیے خود ہی عدالتیں لگانے لگے ، فیصلے کرنے لگے اور حیوانوں سے بھی بدتر ہوگئے۔ کتنے ہی دن یہ سوچنے میں گزر جاتے ہیں، کہ جب یہ لوگ قرآن پڑھ رہے تھے، تو انہیں کسے نے یہ نہیں کہا، اوئے بیوقوفا!

از قلم نیرنگ خیال
21 جون 2024
 

زیک

مسافر
خوب غور طلب تحریر ہے۔ ریٹنگ نہیں دے سکتا کہ زبردست دینے کی کوشش کرتا ہوں تو انگلی خود بخود غمناک کی طرف جاتی ہے
 

سیما علی

لائبریرین

واقعہ پر وقت دھول ڈال دیتا ہے اور ہم سب آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجائے جس میں دین کو بنیاد بنا کر وحشت، بربریت اور دیوانگی دکھائی گئی ہو تو اس کا احاطہ کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔اب ہر آدمی تو عالم ہے۔ بات کریں تو کس سے؟ ہر آدمی دانشور ہے، گفتگو ہو تو کس سے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس علم و فرزانگی کے دور میں بات کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ کوئی بیوقوف ہو تو بات کرنی اور سمجھانی آساں بھی ہو۔
توہین اسلام کے لیے سزائے موت کا قانون منظور کیے جانے کے بعد سے ملک میں غیر مسلموں کے خلاف تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق سن 1927 سے 1986ء کے درمیان پاکستان میں توہین اسلام کے صرف 14واقعات درج ہوئے تھے۔ لیکن سن 1987 سے 2022ء کے درمیان کم از کم 2120 افراد کے خلاف توہین اسلام کے کیس درج کیے گئے۔
ہر آدمی قانون اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے
جہاں ہر آدمی عالم ہر آدمی
ہر آدمی کہتا ہے کہ دین کی سمجھ اس سے زیادہ کسی کو نہیں
تو ہم جیسے دیوانے کہاں جائیں
جنھیں نہ ہی دین کی سمجھ ہے نا ہی یہ دنیا کا گورکھ دھندہ سمجھ آتا ہے ۔۔۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون۔ سورۃ الحجر آیت 9
جب بابا مطلب سمجھا رہے تھے، تو میں نے کہا کہ یعنی قرآن کی حفاظت ہم نہ بھی کریں تو خیر ہے؟
اس پر باباغصے میں آگئے اور تند لہجے میں مجھے کہنے لگے۔
اوئے بیوقوفا! تو ں اینوں پڑھ لا، سمجھ لا۔ ایناں بڑا تیرے واسطے۔ اے بندے ایس جوگے ہندے تے اللہ اتوں حکم اتاردا کہ ایدی حفاظت میں کراں گا؟
(بیوقوف! تم اس کو پڑھ لو، سمجھ لو۔ یہ تمہارے لیے بہت ہے۔ اگر انسان اس قابل ہوتے تو مالک کو قرآن میں یہ اعلان نہ کرنا پڑتا کہ اس کی حفاظت میں خود کروں گا
بیشک ایسا ہی
ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کتاب کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
سورۃ الحجر آیت 9
بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں
ہم نادان ہیں جو یہ سمجھتے ہیں
ہم کسی کی جان لے ہی کچھ بڑا کام کریں گے
 

سیما علی

لائبریرین
کبھی کسی واقعے کی اطلاع ملتی ہے۔ کبھی کوئی وحشیانہ قصہ سننے کو ملتا ہے۔ دل کانپ جاتا ہے۔ روح دہل جاتی ہے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ قرآن کی عزت و ناموس کی حفاظت انہوں نے کیوں اپنے سر لے لی ہے؟جب ہمارے لیے قرآن پڑھنا اور سمجھنا اولین شرط ٹہرا تو ان کے سر حفاظت کا کام کس نے ڈالا؟ یہ کس لیے خود ہی عدالتیں لگانے لگے ، فیصلے کرنے لگے اور حیوانوں سے بھی بدتر ہوگئے۔ کتنے ہی دن یہ سوچنے میں گزر جاتے ہیں، کہ جب یہ لوگ قرآن پڑھ رہے تھے، تو انہیں کسے نے یہ نہیں کہا، اوئے بیوقوفا!
اسقدر افسوسناک صورت حال کہ
ایک عام ہجوم جو قابو کرنا مشکل ہوگیا
بہت حساس موضوع پر قلم
پروردگار اجر عظیم عطا فرمائے
نین بھیا بہت
اداس ہوتا ہے دل ان واقعات
پر
لیکن کمزور صرف غمزدہ ہوسکتا کیونکہ آواز اٹھانے پر کہاجاتا آپ تو دین اور دنیا دونوں بھولے ہوئے ہیں ۔۔
عدم برداشت کے رویئے نے ملک کو منتشر اور تقسیم کردیا ہے جہاں مذہب یا کسی بھی اہم مسئلے کے بارے میں عقلی بحث کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے-
🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
 

جاسمن

لائبریرین
کاش ایسے والد سب کو ملتے۔ ایسے استاد ہی مل جاتے۔
مختصر اور غور و فکر کو دعوت دیتی تحریر۔
واقعی ہر شخص خود کو دانشور، مذہب کا ٹھیکیدار ، عالم سمجھتا ہے۔ گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ دل تنگ ہیں، ذہن بند ہیں۔ کوئی سمجھ داری کی، شعور کی بات آئے تو کس راستے سے آئے!
 

سیما علی

لائبریرین
بھیا یہ صرف گھر گھر ٹرئینگ سے ہی آسکتا ہے
کیونکہ یہ جنونی
مذہبی و فرقہ وارانہ
تنظیمیں ہی پیدا کررہی ہیں
ان کا م ہی میں مذہبی اقلیتوں اور اسلام کے مختلف فرقوں کے خلاف تعصب بڑھانا ہے نہ کہ کم کرنا ۔
اسلامی بنیاد پرستی اور اقلیتوں پر حملوں میں میں اضافہ بربریت کے خطرے کی علامات ہیں۔۔۔۔
یہ
صرف اقلیتوں کے لئے نہیں تہذیب کے لیے خطرہ ہے
لیکن یہ سب آپس میں اٹوٹ رشتوں میں جڑے اس لئے کوئی کچھ کرنا نہیں چاہتا
ملا منبروں سے نفرت اگلتے ہیں۔ ان مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کا شور بیماروں اور پڑھائی کرنے والوں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے
بھلا یہ کہاں چاہیں گے کہ امن ہو
جس مذہب
میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی‘‘(سورۃ المائدہ: 32)

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫​

سورة التين​

آیت نمبر -4

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ۔​

پتہ نہیں کہاں کہاں ہم سے کوتاہیاں ہوئیں
اور اچھا بھلا انسان ایک انتہائی اذیت پسنداور سفاک انسان کی شکل میں تبدیل ہوگیا
🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
بھیا یہ صرف گھر گھر ٹرئینگ سے ہی آسکتا ہے
کیونکہ یہ جنونی
مذہبی و فرقہ وارانہ
تنظیمیں ہی پیدا کررہی ہیں
ان کا م ہی میں مذہبی اقلیتوں اور اسلام کے مختلف فرقوں کے خلاف تعصب بڑھانا ہے نہ کہ کم کرنا ۔
اسلامی بنیاد پرستی اور اقلیتوں پر حملوں میں میں اضافہ بربریت کے خطرے کی علامات ہیں۔۔۔۔
یہ
صرف اقلیتوں کے لئے نہیں تہذیب کے لیے خطرہ ہے
لیکن یہ سب آپس میں اٹوٹ رشتوں میں جڑے اس لئے کوئی کچھ کرنا نہیں چاہتا
ملا منبروں سے نفرت اگلتے ہیں۔ ان مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کا شور بیماروں اور پڑھائی کرنے والوں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے
بھلا یہ کہاں چاہیں گے کہ امن ہو
جس مذہب
میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی‘‘(سورۃ المائدہ: 32)

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫​

سورة التين​

آیت نمبر -4

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ۔​

پتہ نہیں کہاں کہاں ہم سے کوتاہیاں ہوئیں
اور اچھا بھلا انسان ایک انتہائی اذیت پسنداور سفاک انسان کی شکل میں تبدیل ہوگیا
🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے بھئ۔ کچھ لوگ آپ کا دائرہ آپکی طاقت سے بڑھ کر بتانے کے لیے تحریکیں بلکہ مسلح تحریکیں بنا بیٹھے ہیں جبکہ بعض آپکی طاقت کو اسقدر ضعیف ثابت کرنے پر دن و رات سوچ و بچار کر رہے ہیں کہ اپنی فوجوں کے ساتھ آپکا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔

آپ کا دائرہ آپکا اخلاص ہے۔ جہاں سے اخلاص ختم وہیں سے لوٹ جانے میں عافیت ہے۔

سب سے مخلص آپکے اپنے والدین ہیں اگر کہ انکی باتیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ شاید ہم ہی اپنے بچوں کے لیے مخلص بن جائیں اس تعریف کے تحت۔ دو سو افراد جو آپکے قریبی ہیں ان تک ہی مخلص ہو جائیں۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ امن کے لیے جنگ ضروری ہے۔ اور جنگ کے لیے امن۔ اب جبکہ آپ ہمہ وقت جنگ میں ہیں تو ہمہ وقت امن بھی حاصل کرنا ہو گا۔ اشعار، قصے وغیرہ امن کا بہترین ذریعہ ہیں الا یہ کہ جنگ ہی سے غافل نا ہو جائیں۔

اللہ نے خود قصہ سنایا ہے۔ قصے سنانے سے فرحت اور مسکراہٹ ملتی ہے۔ قصے سے وحشت اور بربریت ختم ہوتی ہے۔ قصہ جنون کا علاج ہے۔

ہم نے جو یہ قرآن آپ کے پاس بھیجا ہے اس کے ذریعہ سے ہم آپ سے سب سے اچھا قصہ بیان کرتے ہیں۔ ۞ سورۃ نمبر 12 يوسف آیت نمبر 3

اگر آپ اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور آپ مسلمان ہیں اور آپ نیک اعمال کررہیں ہیں تو آپ کو آخرت میں اپنے اجر ملیں گے۔

تاہم، جنت کے لیے لفنگے پن سے دور رہیں اور لفنگے پن کو اپنی زندگی سے فارغ کر دیں اور سنجیدہ ہو جائیں۔ مغرب کی نقالی میں یہ توجیح لائی جاتی ہے کہ میری زندگی میری مرضی، میں اپنے خدا کو جواب دہ اور آپ اپنے، میری زندگی، میری سیاست اس لفنگے پن سے باز رہیں۔ وہاں مغرب میں اس ذہن سازی سے کیا کچھ برائیاں بلکہ شیطانیت پھل پھول رہی ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ یہ دفاعی اور غیر تعمیری سوچ ہے۔ اس میں سامنے والے کو غیر مخلص تصور کر لیا جاتا ہے۔ اس سے انسان نا ختم ہونے والے دائروں میں گھومتا رہتا ہے۔ اصل علم سے دور ہو جاتا ہے اور پھر سستی غالب آتی جاتی ہے۔ اصل تعمیری گفتگو کو موقع و محل پر اٹھا کر رکھ دیا جاتا ہے اور وہ موقع آ سکتا نہیں۔

عصری جماعتوں، گروہوں اور جتھوں سے دور رہنے کی بلند سعی کریں۔

آپ کے گھر 8 افراد، یعنی آپ کے والدین، بیوی اور بچے آپ کی جماعت ہیں۔ 30 افراد، جن میں آپ کے بھائی، بہنیں اور ان کے بچے اور ان کی اولاد شامل ہیں، آپ کی جماعت ہیں۔ آپ کے 150 تایا، چچا، پھوپھی اور خالا اور ان کے بچے آپ کی جماعت ہیں۔ ان سب کو آپ کی اشد ضرورت ہے۔ آپ کے 50 ہمسائے، دوست، اور دفتری ساتھی آپ کی جماعت ہیں۔

اس طرح 200 سے 300 لوگ جو آپ سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں، غیر مخلصی کی وجہ سے شدید خطرے میں ہیں۔

اگر آپ سنجیدہ نہیں ہوئے تو یہ 200 لوگوں کی زندگی کو شدید خطرہ ہو سکتا ہے۔

کارما نامی ایک چیز ہوتی ہے۔ جو آپ دیتے ہیں وہی آپ کو واپس ملتا ہے۔ ان 200 مردوں، عورتوں اور بچوں کو عمران خان، الطاف، نواز، جماعت، جے یو آئی اور دیگر گروہ کا لفنگا بنانے کے بجائے اخلاص دیں۔

مروجہ بے وفا طریقوں کی سیاست یا مذہب کی طرف دیکھیں بھی مت۔ یہ لفنگا پن ہیں اور اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اگر آپ ان 200 لوگوں کو معیاری وقت اور بامعنی گفتگو فراہم کریں تو یہ 100% اخلاص کے ساتھ جواب دیں گے۔ آنے والے دن حکومتوں کے خاتمے اور بھائی چارے کی واپسی کے دن ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے نین بھائی!

خوش نصیب ہیں آپ کہ آپ کو بچپن ہی سے قران کے ساتھ محبت و عقیدت کے رشتے میں باندھ دیا گیا۔ ویسے تو قران سب ہی بچے پڑھتے ہیں لیکن محبت کا رشتہ سب کا اتنی اچھی طرح استوار نہیں ہوتا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سوات میں جو واقعہ پیش آیا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔

ملوث مجرموں کو شناخت کرکے فوری سزائیں دینا بے حد ضروری ہے۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
توہین اسلام کے لیے سزائے موت کا قانون منظور کیے جانے کے بعد سے ملک میں غیر مسلموں کے خلاف تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق سن 1927 سے 1986ء کے درمیان پاکستان میں توہین اسلام کے صرف 14واقعات درج ہوئے تھے۔ لیکن سن 1987 سے 2022ء کے درمیان کم از کم 2120 افراد کے خلاف توہین اسلام کے کیس درج کیے گئے۔
ہر آدمی قانون اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے
جہاں ہر آدمی عالم ہر آدمی
ہر آدمی کہتا ہے کہ دین کی سمجھ اس سے زیادہ کسی کو نہیں
تو ہم جیسے دیوانے کہاں جائیں
جنھیں نہ ہی دین کی سمجھ ہے نا ہی یہ دنیا کا گورکھ دھندہ سمجھ آتا ہے ۔۔۔

بیشک ایسا ہی
ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کتاب کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
سورۃ الحجر آیت 9
بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں
ہم نادان ہیں جو یہ سمجھتے ہیں
ہم کسی کی جان لے ہی کچھ بڑا کام کریں گے
حالات بد سے بدتر اور پھر بدترین کی طرف انتہائی تیزی سے گامزن ہیں۔ ہر معاملے میں ہم مائل بہ زوال ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اسقدر افسوسناک صورت حال کہ
ایک عام ہجوم جو قابو کرنا مشکل ہوگیا
بہت حساس موضوع پر قلم
پروردگار اجر عظیم عطا فرمائے
نین بھیا بہت
اداس ہوتا ہے دل ان واقعات
پر
لیکن کمزور صرف غمزدہ ہوسکتا کیونکہ آواز اٹھانے پر کہاجاتا آپ تو دین اور دنیا دونوں بھولے ہوئے ہیں ۔۔
عدم برداشت کے رویئے نے ملک کو منتشر اور تقسیم کردیا ہے جہاں مذہب یا کسی بھی اہم مسئلے کے بارے میں عقلی بحث کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے-
🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
ہمارا کسی بھی چیز سے کچھ لینادینا نہیں ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کاش ایسے والد سب کو ملتے۔ ایسے استاد ہی مل جاتے۔
مختصر اور غور و فکر کو دعوت دیتی تحریر۔
واقعی ہر شخص خود کو دانشور، مذہب کا ٹھیکیدار ، عالم سمجھتا ہے۔ گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ دل تنگ ہیں، ذہن بند ہیں۔ کوئی سمجھ داری کی، شعور کی بات آئے تو کس راستے سے آئے!
کوئی حل تو نکالنا ہی پڑے گا۔ ورنہ ایسے ہی مرتے رہیں گے سب۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بھیا یہ صرف گھر گھر ٹرئینگ سے ہی آسکتا ہے
کیونکہ یہ جنونی
مذہبی و فرقہ وارانہ
تنظیمیں ہی پیدا کررہی ہیں
ان کا م ہی میں مذہبی اقلیتوں اور اسلام کے مختلف فرقوں کے خلاف تعصب بڑھانا ہے نہ کہ کم کرنا ۔
اسلامی بنیاد پرستی اور اقلیتوں پر حملوں میں میں اضافہ بربریت کے خطرے کی علامات ہیں۔۔۔۔
یہ
صرف اقلیتوں کے لئے نہیں تہذیب کے لیے خطرہ ہے
لیکن یہ سب آپس میں اٹوٹ رشتوں میں جڑے اس لئے کوئی کچھ کرنا نہیں چاہتا
ملا منبروں سے نفرت اگلتے ہیں۔ ان مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کا شور بیماروں اور پڑھائی کرنے والوں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے
بھلا یہ کہاں چاہیں گے کہ امن ہو
جس مذہب
میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی‘‘(سورۃ المائدہ: 32)

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫​

سورة التين​

آیت نمبر -4

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ۔​

پتہ نہیں کہاں کہاں ہم سے کوتاہیاں ہوئیں
اور اچھا بھلا انسان ایک انتہائی اذیت پسنداور سفاک انسان کی شکل میں تبدیل ہوگیا
🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے ہر گروہ میں جو عمل یعنی فتنہ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، وہ ٹرینڈ ہوتے ہیں۔ باقی ہجوم صرف منہ پر کالک ملنے کو ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے نین بھائی!

خوش نصیب ہیں آپ کہ آپ کو بچپن ہی سے قران کے ساتھ محبت و عقیدت کے رشتے میں باندھ دیا گیا۔ ویسے تو قران سب ہی بچے پڑھتے ہیں لیکن محبت کا رشتہ سب کا اتنی اچھی طرح استوار نہیں ہوتا۔
سر بہ سر محبت احمد بھائی۔۔۔۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم خوش نصیب نہیں ہیں۔
 
Top