نیرنگ خیال
لائبریرین
اوئے بیوقوفا
جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اہل قلم اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں۔ میں ایک کونے میں بیٹھا دیکھتا رہتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرا دل کرتا ہے میں بھی اس موضوع پر قلم کشائی کروں۔ اس کے محرکات و مدرکات کا بنظر غائر جائزہ لوں، اور رائی کے وزن برابر اپنا ما فی الضمیر بھی احباب کی نذر کروں۔ مگر ایسا ہو نہیں پاتا۔ وقت گزر جاتا ہے۔ واقعہ پر وقت دھول ڈال دیتا ہے اور ہم سب آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجائے جس میں دین کو بنیاد بنا کر وحشت، بربریت اور دیوانگی دکھائی گئی ہو تو اس کا احاطہ کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔اب ہر آدمی تو عالم ہے۔ بات کریں تو کس سے؟ ہر آدمی دانشور ہے، گفتگو ہو تو کس سے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس علم و فرزانگی کے دور میں بات کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ کوئی بیوقوف ہو تو بات کرنی اور سمجھانی آساں بھی ہو۔میں نے قرآں اپنے باپ سے پڑھا ہے۔ بابا نے قرآن پڑھایا نہیں، ہمارے اندر اتارنے کی کوشش کی ہے۔ کسی لفظ سے پہلے الف آجائے، ی آجائے، ن آجائے تو معنی پر کیا فرق پڑتا ہے، یہ مجھے بابا نے سمجھایا۔ اور ایسا سمجھایا کہ آج تک یاد ہے۔ بابا الفاظ کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے جاتے، اور پھر کہتے ان کو یاد کرنے کی کوشش نہ کرو،تم پڑھتے رہو گے یہ خود بخود تمہیں یاد ہونا شروع ہوجائیں گے اور پھر بعد میں سمجھ میں آنے لگیں گے۔ایک بات جو بابا کہا کرتے تھے، کہ قرآن کے اپنے لہجے ہیں، اپنی آواز ہے۔ قرآن اپنا انداز تخاطب بدل لیتا ہے۔ جب وہ کافروں سے بات کرتا ہے۔ جب وہ مومنوں سے بات کرتا ہے۔ جب وہ جزا کی بات کرتا ہے۔ اور جب وہ سزا کی بات کرتا ہے۔ کبھی وہ تمام بنی نوع انسان سے خطاب کرتا ہے اور کبھی کسی مخصوص گروہ سے۔ میں حیران ہوتا تھاکہ قرآن تمام انسانوں سے بھی کلام کرتا ہے، کافروں کو بھی مخاطب کرتا ہے! یعنی اس پر بھی ہماری اجارہ داری کہیں نہیں۔ بابا کی ان باتوں سے ایک بات تو میرے ذہن میں بیٹھ گئی کہ قرآن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ ظاہر ہے جس کتاب کا خطاب بنی نوع انسان سے ہو، اس کے موضوعات کی آفاقیت کس قدر واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگرمذاہب کے لوگ بھی قرآن کو پڑھتے ہیں، اور اس سے اپنے مسائل کا حل بھی پاتے ہوں گے۔ واللہ اعلم
بابا قرآن اکثر فجر کے بعد پڑھاتے۔ اماں اس دوران ناشتہ بنایا کرتیں۔ چائے چولہے پر دھری ہوتی۔ ہماری توجہ سپارے سے بھٹک کر چائے کی طرف جاتی کہ اب ملی چائے کہ اب ملی۔ بابا غصہ ہوجاتے۔ ڈانٹتے۔ کئی بار کہہ دیتے جاؤ پہلے چائے پی لو۔ ناشتہ کر لو۔ ہمیں علم ہوتا تھا کہ اب اٹھ گئے تو چھٹی۔ اب کل ہی پڑھیں گے۔ خیر انہی دنوں جب میں قرآن پڑھ رہا تھا، یہ آیت بھی آگئی۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون۔ سورۃ الحجر آیت 9
جب بابا مطلب سمجھا رہے تھے، تو میں نے کہا کہ یعنی قرآن کی حفاظت ہم نہ بھی کریں تو خیر ہے؟
اس پر باباغصے میں آگئے اور تند لہجے میں مجھے کہنے لگے۔
اوئے بیوقوفا! تو ں اینوں پڑھ لا، سمجھ لا۔ ایناں بڑا تیرے واسطے۔ اے بندے ایس جوگے ہندے تے اللہ اتوں حکم اتاردا کہ ایدی حفاظت میں کراں گا؟
(بیوقوف! تم اس کو پڑھ لو، سمجھ لو۔ یہ تمہارے لیے بہت ہے۔ اگر انسان اس قابل ہوتے تو مالک کو قرآن میں یہ اعلان نہ کرنا پڑتا کہ اس کی حفاظت میں خود کروں گا)۔
کبھی کسی واقعے کی اطلاع ملتی ہے۔ کبھی کوئی وحشیانہ قصہ سننے کو ملتا ہے۔ دل کانپ جاتا ہے۔ روح دہل جاتی ہے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ قرآن کی عزت و ناموس کی حفاظت انہوں نے کیوں اپنے سر لے لی ہے؟جب ہمارے لیے قرآن پڑھنا اور سمجھنا اولین شرط ٹہرا تو ان کے سر حفاظت کا کام کس نے ڈالا؟ یہ کس لیے خود ہی عدالتیں لگانے لگے ، فیصلے کرنے لگے اور حیوانوں سے بھی بدتر ہوگئے۔ کتنے ہی دن یہ سوچنے میں گزر جاتے ہیں، کہ جب یہ لوگ قرآن پڑھ رہے تھے، تو انہیں کسے نے یہ نہیں کہا، اوئے بیوقوفا!
از قلم نیرنگ خیال
21 جون 2024