میرا دل اضطراب رکھتا ہے
جیسے صحرا سراب رکھتا ہے
رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
اور دل تیرے خواب رکھتا ہے
کتنے دکھ جھیلے ہیں خوشی کے لیے
کون اس کا حساب رکھتا ہے
میری سب حسرتیں لکھے گا کیا
جو عمل کی کتاب رکھتا ہے
جو بیاں میں نہیں سما سکتے
عشق ایسے عذاب رکھتا ہے
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو وہ سحاب رکھتا ہے
جو پسِ لفظ ہیں صفی ایسے
وہ کہانی میں باب رکھتا ہے