شاید 1963 - 64 میں ہندی اخبار میں بچوں کے صفحے سے ترجمہ کر کے یا مرکزی خیال لے کر کہانیاں لکھی تھیں جو ماہنامہ پیام تعلیم میں شائع ہوئی تھیں۔ کل ریختہ میں کچھ تلاش کرتے ہوئے اپنی ہی یہ کہانی سامنے آ گئی!
مینا کی دم
اعجاز اختر
ایک مینا تھی۔ یہ بہت بھوکی تھی۔ اپنی بھوک مٹانے کے لئے اس نے ادھر ادھر دیکھا اچانک اسے ایک گھر میں دودھ کی پیالی رکھی نظر آئی، دل للچا گیا، پھر سے اڑ کر پیالی پر جا بیٹھی اور دودھ پینے لگی۔ دودھ پیتے میں اس کی دم ہوا میں لہرا رہی تھی۔
اچانک ایک بڑی بی گھر میں آئیں۔...
لکھنے والے کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ابجدی ترتیب رکھے (ا ب ج د) یا تہجی( ا ب پ)، کوئی قانون مقرر نہیں۔ حروف انہیں فہرستوں میں استعمال کئے جاتے ہیں جہاں فہرست مختصر ہو، طویل فہرست میں تو نمبر شمار ہی عموماً استعمال کئے جاتے ہیں
صحیح نہیں لگتا مجھے یہ ڈے ٹائم سیونگ کا نظام۔ نہ جانے حکومتیں بدلنے پر راضی کیوں نہیں ہوتیں۔ امریکہ میں تو اس پر رفرینڈم بھی ہوا اور اکثریت نے. اس کے خلاف ووٹ دئے!
نہیں، نہ ہم آواز نہ قوافی۔ واؤ دونوں الفاظ میں مختلف ہے،ایک میں مجہول، دوسرے میں معروف۔ لیکن بطور قافیہ مذکورہ غزل میں درست ہیں ۔ بطور قوافی تو صوفہ اور کوفہ بھی غلط ہوتے
پہلا متبادل ہی بہتر ہے
درست
پختگی شاید درست لفظ نہیں، کچھ اور سوچو
ٹھیک
شعر واضح نہیں ہوا
ویسے ٹھیک ہے لیکن بھڑکے ہے جدید استعمال نہیں
درست
دونوں درست ہی لگ رہے ہیں
یہ ابہام اس وقت نہیں ہے جب قاری یہ مطلب سمجھ چکا ہو کہ شاعر کسی کو مدت تک منانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یہ بات ہی اصل مصرع سے واضح نہیں لگتی۔ آگے تمہاری مرضی!