ہر ایک سے بیزار وہ اپنے میں مگن ہے
شاید اسے چہروں کو پرکھ لینے کا فن ہے
ہونے سے نہ ہونے کے سفر میں ہیں سبھی گم
حا لا نکہ ہر چہرے پہ صدیوں کی تھکن ہے
چہرے
اے چمن والوں ! جنوں کی عظمت دیکھ لی
ان گلوں کو واقف چاک گریباں کر چلے
دو چار ٹانکے اور لگے ہاتھ بخیہ گر
دامن بھی کچھ پھٹا ہے گریباں کے ساتھ ساتھ
بخیہ گر