سیما علی
لائبریرین
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
گریباں
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
اے چمن والوں ! جنوں کی عظمت دیکھ لیغلام ہمدانی مصحؔفی بالحقیقت علم وہنر میں ہمہ دانی کا دعویٰ کرنیکے اہل بلکہ اِس لفظ کو نام کا حصہ بنالینے کا حق رکھتے تھے ۔سویہ کام اُن کے لیے قدرت نے کیا اور والدین سے اُن کا نام غلام ہمدانی رکھوا کر زمانے میں مصحفی کے نام سے اُنہیں مشہور کیا۔میرتقی میؔر کے بعد مصحفی ہی کا کلام اِس لائق ہے کہ پڑھا جائے اور باربار پڑھا جائے ۔ مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم، تیرے دل میں تو بہت کام رُفو کا نکلا، واہ!
آپ نے امانت علی خان کی خوبصورت آواز ، بے ساختہ انداز، قدرتی رنگ اور فطری ڈھنگ میں گائے ہر نغمے کی طرح یہ غزل بھی ضرورسُنی ہوگی ،یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرو کرتے ، ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے ۔۔۔اُسی غزل کا یہ شعر بھی ہے جو میں ’’دئیے گئے لفظ پر شاعری ‘‘کےلیے پیش کرنے چلا :
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عُمر رُفو گر رہے رُفو کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ آرزوتھی تجھے گُل کے رُوبرو کرتے ،یہ آرزوتھی تجھے گُل کے رُوبرو کرتے!
خوبصورت آواز ، بے ساختہ انداز ، قدرتی رنگ اور فطری ڈھنگ تو گائیکی میں محمد رفیع کا بھی تھا،مکیش ، ہیمنت کماراورسی ایچ آتماکا بھی تھا، لتا اور آشا،گیتا دت اور شاردا کے اُسلوب کا بھی خاصا یہی تھا ۔مگر ہمارے مہدی حسن کو گاتے وقت بہت زورلگانا پڑتا تھاحالانکہ شہناہِ غزل تھے مگر غزل گائیکی ہی میں اُنہیں اور اُن کی شہنشاہیت کویوں لگتا تھا جیسے بڑے ہی جان لیوا چیلنجز کا سامنا ہے ۔حد یہ کہ اِس زورآزمائی میں اُن کا منہ تک کچھ سے کچھ ہوجاتا ۔ مگر امانت علی خاں کچھ اِس طرح گاتے تھے جیسے ایک موج ہے یا لہر کہ ساحل اور منجدھار سے بے نیاز بہے چلی جارہی ہے بہے چلی جارہی ہے بہے چلی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔کہاں بل کھانا ہے، کہاں تیور بدلنے ہیں اور کہاں لَے بڑھانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ باتیں اِس کی ٹھوکر پہ۔۔۔۔۔۔
چاک
موسیقیوہ جب بھی کرتے ہیں اِس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا۔ میں ۔ اور ۔ بھی ۔ نغمے ۔ بکھرے ۔ لگتے ہیں
نغمے/نغمہ/ نغمات/نغموں/نغمگی جوچاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبموسیقی
ضربِ کلیم
وہ نغمہ سردیِ خُونِ غزل سرا کی دلیل
کہ جس کو سُن کے ترا چہرہ تاب ناک نہیں
نَوا کو کرتا ہے موجِ نفَس سے زہر آلُود
وہ نَے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں
پھِرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں
کسی چمن میں گریبانِ لالہ چاک نہیں
گریبان
حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق ک گریباں ہونا
قسمت
ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقنگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
حسرتِ موہانی
ناز
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہراکچھ اس ادا سے آج وہ پہلو میں آ گئے،
جیسے کہ زندگی میں کئی ناز اٹھائے ہم نے۔
"وفا"
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوق
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
ابراہیم ذوق
چمن
نہار کا منظر ہے، ہوا میں خنکی ہےاعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ
نعت رسول مقبول ﷺ
کے اشعار
نظر اک چمن سے دوچار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے
عجب اُس کے گل کی بہار ہے کہ بہار بلبلِ زار ہے
نہ دلِ بشر ہی فگار ہے کہ مَلَک بھی اس کا شکار ہے
یہ جہاں کہ ہژدہ ہزار ہے جسے دیکھو اسکا ہزار ہے
نہیں سر کہ سجدہ کناں نہ ہونہ زباں کہ زمزمہ خواں نہ ہو
نہ وہ دل کہ اس پہ تپاں نہ ہو نہ وہ سینہ جس کو قرارہے
وہ ہے بھینی بھینی وہاں مہک کہ بسا ہے عرش سے فرش تک
وہ ہے پیاری پیاری وہاں چمک کہ وہاں کی شب بھی نہار ہے
نہار
چراغِ نعت ہے روشن ہوا کی لہروں میںنہار کا منظر ہے، ہوا میں خنکی ہے
دل کو سکون دیتی یہ صبح کی روشنی ہے
"چراغ"
مگن ہیں ہم خیالوں کی دنیا میں،چراغِ نعت ہے روشن ہوا کی لہروں میں
ہے اُنؐ کے ذکر کا چرچا خلا کی لہروں میں
اگرچہ تیر رہا ہوں فنا کی لہروں میں
مرا وجود ہے قائم بقا کی لہروں میں
کسی طرح سے سفر ہو سکے مدینے کا
ہے کپکپی سی پریشاں دعا کی لہروں میں
سماعتوں کو عطا ہو جمالِ لحنِ رسولؐ
ہے اُنؐ کا حُسنِ تلاوت ہوا کی لہروں میں
بصارتوں کو ملے گا کبھی تو رزقِ لقا
یقینِ دید بسا ہے ثنا کی لہروں میں
خبر ملی، لبِ رحمتؐ پہ میرا نام آیا
بسا ہے ایک چراغاں نوا کی لہروں میں
حرم کی وسعتِ خاموش کی کسک بن کر
ہے بے قراریء ایماں صبا کی لہروں میں
بکھر کے رہ گئے اظہار کے وسائل بھی
وفورِ جبر ہے ایسا فضا کی لہروں میں
وفورِ سوزِ دروں، درد و کرب کا احساس
بطرزِ جاں کنی اترا ندا کی لہروں میں
ہے مجھ میں اب بھی درخشاں نگاہِ لطف کی ضَو
یہ کیسا نُور ہے جامِ لقا کی لہروں میں
طلوعِ حرف پہ ایسا ہے اُن کا لطف و کرم
دمک رہا ہے درِ مصطفیٰ کی لہروں میں
عزیزؔ خاکِ مدینہ کی برکتوں کے لئے
مگن ہے صبح و مسا التجا کی لہروں میں
مگن
یہ فرمائش غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہےمگن ہیں ہم خیالوں کی دنیا میں،
حقیقت سے کچھ لمحوں کی دوری ہے
"فرمائش"
جیسے تضاد ہوتا ہے لیل و نہار میںاعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ
نعت رسول مقبول ﷺ
کے اشعار
نظر اک چمن سے دوچار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے
عجب اُس کے گل کی بہار ہے کہ بہار بلبلِ زار ہے
نہ دلِ بشر ہی فگار ہے کہ مَلَک بھی اس کا شکار ہے
یہ جہاں کہ ہژدہ ہزار ہے جسے دیکھو اسکا ہزار ہے
نہیں سر کہ سجدہ کناں نہ ہونہ زباں کہ زمزمہ خواں نہ ہو
نہ وہ دل کہ اس پہ تپاں نہ ہو نہ وہ سینہ جس کو قرارہے
وہ ہے بھینی بھینی وہاں مہک کہ بسا ہے عرش سے فرش تک
وہ ہے پیاری پیاری وہاں چمک کہ وہاں کی شب بھی نہار ہے
نہار
ہر ایک سے بیزار وہ اپنے میں مگن ہےچراغِ نعت ہے روشن ہوا کی لہروں میں
ہے اُنؐ کے ذکر کا چرچا خلا کی لہروں میں
اگرچہ تیر رہا ہوں فنا کی لہروں میں
مرا وجود ہے قائم بقا کی لہروں میں
کسی طرح سے سفر ہو سکے مدینے کا
ہے کپکپی سی پریشاں دعا کی لہروں میں
سماعتوں کو عطا ہو جمالِ لحنِ رسولؐ
ہے اُنؐ کا حُسنِ تلاوت ہوا کی لہروں میں
بصارتوں کو ملے گا کبھی تو رزقِ لقا
یقینِ دید بسا ہے ثنا کی لہروں میں
خبر ملی، لبِ رحمتؐ پہ میرا نام آیا
بسا ہے ایک چراغاں نوا کی لہروں میں
حرم کی وسعتِ خاموش کی کسک بن کر
ہے بے قراریء ایماں صبا کی لہروں میں
بکھر کے رہ گئے اظہار کے وسائل بھی
وفورِ جبر ہے ایسا فضا کی لہروں میں
وفورِ سوزِ دروں، درد و کرب کا احساس
بطرزِ جاں کنی اترا ندا کی لہروں میں
ہے مجھ میں اب بھی درخشاں نگاہِ لطف کی ضَو
یہ کیسا نُور ہے جامِ لقا کی لہروں میں
طلوعِ حرف پہ ایسا ہے اُن کا لطف و کرم
دمک رہا ہے درِ مصطفیٰ کی لہروں میں
عزیزؔ خاکِ مدینہ کی برکتوں کے لئے
مگن ہے صبح و مسا التجا کی لہروں میں
مگن
ہر ایک سے بیزار وہ اپنے میں مگن ہے
شاید اسے چہروں کو پرکھ لینے کا فن ہے
ہونے سے نہ ہونے کے سفر میں ہیں سبھی گم
حا لا نکہ ہر چہرے پہ صدیوں کی تھکن ہے
چہرے
عرشِ بریں
"کمالِ گرمئ سعئ تلاشِ دید” نہ پوچھآتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھویا گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک