دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

اربش علی

محفلین
کیوں اسیرِ گیسوے خم دارِ قاتل ہو گیا
ہاے! کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا

کوئی نالاں، کوئی گِریاں، کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اُٹھتے ہی دگر گوں رنگِ محفل ہو گیا

انتظار اُس گُل کا اس درجہ کیا گُل زار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا

اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فداے دستِ قاتل ہو گیا

قیسِ مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیِ محمل ہو گیا

یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا

(مولانا ابوالکلام آزاد)

زُلف
 

سیما علی

لائبریرین

قفس میں قید رکھ یا قید سے آزاد رہنے دے

بہرصورت چمن ہی میں مجھے صیّاد رہنے دے

آزاد

کیوں اسیرِ گیسوے خم دارِ قاتل ہو گیا
ہاے! کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا

کوئی نالاں، کوئی گِریاں، کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اُٹھتے ہی دگر گوں رنگِ محفل ہو گیا

انتظار اُس گُل کا اس درجہ کیا گُل زار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا

اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فداے دستِ قاتل ہو گیا

قیسِ مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیِ محمل ہو گیا

یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا

(مولانا ابوالکلام آزاد)

زُلف
کچھ اب کے ہم بھی کہیں اس کی داستان وصال
مگر وہ زلف پریشاں کھلے تو بات چلے

جفا یہ سلسلۂ صد ہزار عنواں ہے
قمیص یوسف کنعاں کھلے تو بات چلے

سفر ہے اور ستاروں کا اک بیاباں ہے
مسافری کا بھی امکاں کھلے تو بات چلے

طلسم شیوۂ یاراں کھلا تو کچھ نہ ہوا
کبھی یہ حبس دل و جاں کھلے تو بات چلے

سلگ رہا ہے افق بجھ رہی ہے آتش مہر
رموز ربط گریزاں کھلے تو بات چلے
عزیز حامد مدنی

گریزاں
 

سیما علی

لائبریرین
بے کسی ہاے شبِ ہجر کی وحشت، ہَے ہَے!
سایہ خورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
(غالب)

خورشید
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

نالۂ صیّاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خُونِ گُلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
علامہ اقبال رح

معمور
 

اربش علی

محفلین
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوۂ اربابِ وفا بھی سُن لے
خُوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سُن لے
(علامہ اقبال)

نالہ
 

سیما علی

لائبریرین
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوۂ اربابِ وفا بھی سُن لے
خُوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سُن لے
(علامہ اقبال)

نالہ

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنئ پیغام ابھی

شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زناریٔ بت خانۂ ایام ابھی

عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی

سعئ پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی

سحر و شام
 

اربش علی

محفلین
کھو نہ جا اس سَحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش!
اِک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مےخانہ ہیں مُدّت سے خموش
مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گُلگُونہ فروش!
صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
(اقبال)

سروش
 
لفظ آپ نے نہیں دیا تو ہم نے نشتر

تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اتر گیا رگ جاں میں یہ نشتر پھر بھی


رگِ جاں
یہ مرض بھی کیسا عجیب ہے نہ دوا لگے نہ دعا لگے
رگ جاں میں ایسی چھبن سی ہے رم زندگی بھی سزا لگے
دعا
 
کھو نہ جا اس سَحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش!
اِک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مےخانہ ہیں مُدّت سے خموش
مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گُلگُونہ فروش!
صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
(اقبال)

سروش
شاعر بزم عقل و ہوش ہاں کوئی اور نغمہ سروش
دل کی صدا ہے کیوں خاموش دل کی صدا کو کیا ہوا
صدا
 
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

دستک
تو نے دستک ہی نہیں کسی دروازے پر
ورنہ کھلنے کو تو دیوار میں بھی در تھے بہت
دیوار
 
Top