شکیل احمد خان23
محفلین
قفس میں قید رکھ یا قید سے آزاد رہنے دے
بہرصورت چمن ہی میں مجھے صیّاد رہنے دےآزاد
قفس میں قید رکھ یا قید سے آزاد رہنے دے
بہرصورت چمن ہی میں مجھے صیّاد رہنے دے
آزاد
کچھ اب کے ہم بھی کہیں اس کی داستان وصالکیوں اسیرِ گیسوے خم دارِ قاتل ہو گیا
ہاے! کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
کوئی نالاں، کوئی گِریاں، کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اُٹھتے ہی دگر گوں رنگِ محفل ہو گیا
انتظار اُس گُل کا اس درجہ کیا گُل زار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا
اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فداے دستِ قاتل ہو گیا
قیسِ مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیِ محمل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا
(مولانا ابوالکلام آزاد)
زُلف
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجودبے کسی ہاے شبِ ہجر کی وحشت، ہَے ہَے!
سایہ خورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
(غالب)
خورشید
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوۂ اربابِ وفا بھی سُن لے
خُوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سُن لے
(علامہ اقبال)
نالہ
سحر و شام
یہ مرض بھی کیسا عجیب ہے نہ دوا لگے نہ دعا لگےلفظ آپ نے نہیں دیا تو ہم نے نشتر
تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اتر گیا رگ جاں میں یہ نشتر پھر بھی
رگِ جاں
شاعر بزم عقل و ہوش ہاں کوئی اور نغمہ سروشکھو نہ جا اس سَحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش!
اِک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مےخانہ ہیں مُدّت سے خموش
مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گُلگُونہ فروش!
صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
(اقبال)
سروش
تو نے دستک ہی نہیں کسی دروازے پرہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
دستک
جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہےتو نے دستک ہی نہیں کسی دروازے پر
ورنہ کھلنے کو تو دیوار میں بھی در تھے بہت
دیوار
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیمجی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
نامہ
نامہ بر تو ہی بتا تو نے دیکھے ہوں گےپھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کیے ہوئے
اک نَو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فُروغِ مے سے گلِستاں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ دَر پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیرِ بارِ منّتِ درباں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
نامہ
تو مسکرائے تو صبحیں تجھے سلام کریںتجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
سلام
جو ہے عرش پر وہی فرش پر کوئی خاص اس کا مکاں نہیںمصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مِہرِ چرخِ نبوت پہ روشن دُرود
گلِ باغِ رسالت پہ لاکھوں سلام
شہرِ یارِ ارم، تاج دارِ حرم
نوبہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شبِ اسرا کے دولھا پہ دائم دُرود
نوشۂ بزمِ جنّت پہ لاکھوں سلام
عرش کی زیب و زینت پہ عرشی دُرود
فرش کی طَیب و نُزہت پہ لاکھوں سلام
نورِ عینِ لطافت پہ اَلطف دُرود
زیب و زینِ نظافت پہ لاکھوں سلام
سروِ نازِ قِدَم، مغزِ رازِ حِکَم
یکّہ تازِ فضیلت پہ لاکھوں سلام
نقطۂ سِرِّ وحدت پہ یکتا دُرود
مرکزِ دورِ کثرت پہ لاکھوں سلام
عرش