نگاہِ عشق و مستی میں اُسی کو مدعا کہہ کر
میں قدموں میں جبیں رکھ دوں وہی کعبے کا کعبہ ہے
بہر سو رقص ظلمت میں ستم کے جبرو وحشت میں
وہی مظلوم و بے کس کا مسیحا اور ملجا ہے
یہ اعزازِ شہہِ مرسل کو کسی کو مل نہیں سکتا
اُسے ختم الرسل سمجھو، وہی یاسیں و طٰہٰ ہے
○○
بدرالدجیٰ چہرہ ترا، زلفیں تری ہیں...