غزل
بشر نواز
آہَٹ پہ کان، در پہ نَظر اِس طرح نہ تھی
ایک ایک پَل کی ہم کو خَبر اِس طرح نہ تھی
تھا دِل میں درد پہلے بھی، لیکن نہ اِس قدر
وِیراں تو تھی حَیات، مگر اِس طرح نہ تھی
ہر ایک موڑ، مقتلِ ارمان و آرزُو!
پہلے تو، تیری راہ گُزر اِس طرح نہ تھی
جب تک صَبا نے، چَھیڑا نہ تھا نِکہَتِ گُلاب...
غزل
شفیق خلشؔ
کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو
سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو
شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو
دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو
کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات!
خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو
اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت!
صُحبت...
غزل
جلیل حسن جلیؔل
چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے!
آپ، جب آئے قیامت ہی اُٹھاتے آئے
نالۂ گرم نے، اِتنا نہ کِیا تھا رُسوا
اشک کمبخت تو، اور آگ لگاتے آئے
دِل کو مَیں اُن کی نِگاہوں سے بچاتا، کیونکر
دُور سے، تِیر نِشانے پہ لگاتے آئے
آئے ہم سُوئے قَفس ، چھوڑ کے جب گُلشن کو
آہ سے آگ نشیمن میں...
غزل
لُبھاتا ہے اگرچہ حسُنِ دریا، ڈر رہا ہُوں مَیں
سَبب یہ ہے کہ ، اِک مُدّت کنارے پر رہا ہُوں مَیں
یہ جھونکے، جن سے دِل میں تازگی، آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
اِنھی جھونکوں سے، مُرجھایا ہُوا شب بھر رہا ہُوں مَیں
تیرے آنے کا دن ہے، تیرے...
غزل
عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا
یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا
جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا
ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی، اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صُبح پہ دِل نے تو کُچھ کہا...
غزل
فِراق گورکھپُوری
تِرا جمال بھی ہے آج، اِک جہانِ فِراق
نِگاہِ لُطف و کرم خود ہے تر جمانِ فِراق
فضا جہانِ محبّت کی جِن سے تھی رنگِیں
تجھے بھی یاد کچھ آئے وہ، شادمانِ فِراق
نظر بچا کے جنھیں برقِ حُسن چھوڑ گئی
مِلے نہ زخمِ نہاں میں بھی وہ نشانِ فِراق
نِگاہِ ناز تِری تھی تمام قَول و قَسَم
کسی...
غزل
ٹھان لی اُس نے منہ چھپانے کی
بچ گئی آبرو زمانے کی
آگئی رات تیرے جانے کی
اب نہیں صُبح مُسکرانے کی
گیسُوئے یار سے جو ہو کے گئیں
وہ ہَوائیں نہیں اب آنے کی
پُھوٹتی پَو بھی پا سکی نہ ادا
زیرِ لب تیرے مُسکرانے کی
حُسن آیا نہیں شباب پر، اور
آنکھ پڑنے لگی زمانے کی
سمٹ آئی ہے اُس کی آنکھوں...
غزل
بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے
تو وجہ کیا کوئی باقی ہو دِل میں ڈر کے لیے
طَلَب ذرا نہ ہو تکیہ کی عُمر بھر کے لیے!
مُیَسّر اُن کا ہو زانُو جو میرے سر کے لیے
تمنّا دِل میں کہاں اب کسی بھی گھر کے لیے
نہیں ہے چاند مُیسّر جو بام و دَر کے لیے
کوئی بھی پیار ہو، اِظہار سے عِبارت ہے!
کریں...
غزل
شفیق خلشؔ
حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!
انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں
جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی !
غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں
خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی
کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں
محبّتوں میں عِنایت کا...
مِرزا محمد رفیع سوداؔ
تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی
شبنم بھی اِس چمن سے صَبا چشمِ تر گئی
دیوانہ کون گُل ہے تِرا، جس کو باغ میں
زنجیر کرنے ، موجِ نسیمِ سَحر گئی
کُچھ تو اثر قبُول کہ تجھ تک ہماری آہ
سِینے سے ارمغاں لیے لختِ جِگر گئی
نّظارہ باز بزمِ بُتاں کا ہُوں، جیسے مَیں
تُو ہی...
غزل
شفیق خلشؔ
غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے
مُطمئن اِس پہ ہیں کھرے ہی جیئے
اُن سے اِظہار سے ڈرے ہی جیئے
اب کِیا، اب کِیا کرے ہی جیئے
عُمر بھر وصل کی اُمید پہ سر
اُن کی دہلیز پر دَھرے ہی جیئے
ہم وہ ممنُونِ خوش تخیّل ہیں
اُن کو بانہوں میں جو بَھرے ہی جیئے
کب سپاٹ اُن کا تھا چَلن مجھ سے...
غزل
شفیق خلِشؔ
ہر مُصیبت جو کھڑی کی اُنھی کے خُو نے کی
اُس پہ ہَٹ دھرمی ہر اِک بار یہ، کہ تُو نے کی
شرم دُورآنکھوں سے اپنوں کی ہائے ہُو نے کی
اور کچھ، اَوچھوں سے تکرار و دُو بَدُو نے کی
اِک جہاں کی رہی خواہش سی مجھ سے مِلنے کی
یُوں مِرے عِشق کی تشہیر ماہ رُو نے کی
کچھ تو پُر برگ و...
غزل
راشد آذر
چاہت تمھاری سینے پہ کیا گُل کتر گئی
کِس خوش سَلِیقگی سے جگِر چاک کر گئی
رکھی تھی جو سنبھال کے تُو نے سلامتی
وہ تیرے بعد کس کو پتا ، کس کے گھر گئی
جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک
اک لمحۂ خَفِیف میں یکسر بکِھر گئی
بھٹکے ہُوئے تھے ایسے کہ گردِسفر کو ہم
مُڑ مُڑ کے دیکھتے رہے،...
غزل
شہزاؔد احمد
چُپ کے عالَم میں وہ تصویر سی صُورت اُس کی
بولتی ہے تو، بدل جاتی ہے رنگت اُس کی
سیڑھیاں چڑھتے اچانک وہ ملی تھی مجھ کو
اُس کی آواز میں موجود تھی حیرت اُس کی
ہاتھ چُھو لُوں تو لرز جاتی ہے پتّے کی طرح
وہی ناکردہ گناہی پہ ندامت اُس کی
کسی ٹھہری ہُوئی ساعت کی طرح مُہر بہ لب...
غزل
شفیق خلشؔ
میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی
اُس سے ہر وقت رہی اُن کی گفتگو نے کی
کس سَہارے ہو بَسر اپنی زِندگی، کہ ہَمَیں
اِک بَدی تک، نہیں تفوِیض نیک خُو نے کی
باغ میں یاد لِیے آئی تو فریب دِیئے!
دِیدَنی تھی مِری حالت جو رنگ و بُو نے کی
ترکِ اُلفت کی تھی تحریک، شرمسار ہُوئی!
کُو بہ...