غزل
نظیؔر اکبر آبادی
گُل رنگی و گُل پیرَہَنی گُل بَدَنی ہے
وہ نامِ خُدا حُسن میں سچ مُچ کی بنی ہے
گُلزار میں خُوبی کے اب اُس گُل کے برابر
بُوٹا ہے نہ شمشاد نہ سرو چَمَنی ہے
انداز بَلا، ناز، سِتم، قہر، تبسّم
اور تِس پہ غضب کم نگہی، کم سُخَنی ہے
اُس گورے بدن کا کوئی کیا وصف کرے آہ !
ختم اُس کے...
غزل
فِراقؔ گورکھپُوری
یہ تو نہیں کہ غم نہیں!
ہاں میری آنکھ نم نہیں
تم بھی تو تم نہیں ہو آج!
ہم بھی تو آج، ہم نہیں
نشّہ سنبھالے ہےمجھے
بہکے ہُوئے قدم نہیں
قادرِ دو جہاں ہے، گو !
عشق کے دَم میں دَم نہیں
موت، اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
کِس نے کہا یہ تُم سے خضر!
آبِ حیات سم نہیں
کہتے ہو...
غزل
شہریار
مَیں چاہتا ہُوں! نہ آئیں عذاب، آئیں گے
یہ جتنے لوگ ہیں، زیرِعتاب آئیں گے
اِس اِک خبر سے سراسیمہ ہیں سبھی، کہ یہاں !
نہ رات ہوگی، نہ آنکھوں میں خواب آئیں گے
ذرا سی دیر ہے خوشبُو و رنگ کا میلہ
خِزاں کی زد میں ابھی یہ گُلاب آئیں گے
ہر ایک موڑ پہ اِک حشر سا بَپا ہوگا
ہر ایک لمحہ، نئے...
غزل
دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے
جو تحیّر میں ڈال سکتا ہے
کیا تخیّل نہ ڈھال سکتا ہے
مفت آزار پال سکتا ہے
خود کو بانہوں میں ڈال کر میرے
اب بھی غم سارے ٹال سکتا ہے
کب گُماں تھا کسی بھی بات پہ یُوں
اپنی عزّت اُچھال سکتا ہے
جب ہو لِکّھا یُوں ہی مُقدّر کا!
تب اُسے کون ٹال سکتا ہے
ذہن، غم دِل...
غزل
جنُوں کا دَور ہے، کِس کِس کو جائیں سمجھانے
اِدھر بھی ہوش کے دُشمن، اُدھر بھی دیوانے
کَرَم کَرَم ہے تو، ہے فیضِ عام اُس کا شعار
یہ دشت ہے وہ گُلِستاں، سحاب کیا جانے
کسی میں دَم نہیں اہلِ سِتم سے کُچھ بھی کہے !
سِتم زدوں کو، ہر اک آ رہا ہے سمجھانے
بشر کے ذَوقِ پَرِستِش نے خود کیے تخلیق...
غزل
کُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ
جُھوٹے وعدوں سے پڑے زخم تو بھرتے جاؤ
کُچھ تو دامن میں خوشی جینےکی بھرتے جاؤ
اِک مُلاقات ہی دہلیز پہ دھرتے جاؤ
جب بھی کوشِش ہو تمھیں دِل سے مِٹانے کی کوئی
بن کے لازم تم مزِید اور اُبھرتے جاؤ
ہے یہ سب سارا، تمھارے ہی رویّوں کے سبب
جو بتدریج اب...
سلام
۔
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
یہ گُل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لیے
کھڑے ہیں شاہ کمر بستہ اِمتحاں کے لیے
پِھر ایسی رات کب آئے گی آسماں کے لیے
دِیا بُجھا کے یہ کہتے تھے ساتھیوں سے حُسینؑ
جو چاہو، ڈھونڈ لو رستا کوئی اماں کے کیے
کہا یہ سُن کے رفیقوں نے یک زباں ہو کر !
یہ جاں تو وقف...
یہ تمام شراکت آپ سب کی خوش نظری اعلٰی ذوقی ہی کی مرہون ہے
تمام کمال و اعزازات بنام استاد قمر جلالوی کرتے ہُوئے انتخاب کی پزیرائی اور عزت افزائی کے لئے متشکّر ہُوں سیّد صاحب !
بہت شاد رہیں :)
غزل
قمرؔ جَلالوی
بنتا نہیں ہے حُسن سِتمگر شباب میں
ہوتے ہیں اِبتدا ہی سے کانٹے گُلاب میں
جلوے ہُوئے نہ جذب رُخِ بے نقاب میں!
کرنیں سِمَٹ کے آ نہ سَکِیں آفتاب میں
بچپن میں یہ سوال، قیامت کب آئے گی؟
بندہ نواز آپ کے عہدِ شباب میں
صیّاد! آج میرے نَشیمن کی خیر ہو !
بجلی قَفس پہ ٹُوٹتی دیکھی ہے...
غزل
ایک اِک کرکے، سبھی لوگ بدلتے جائیں
اپنے اطوارسے ہی، دِل سے نکلتے جائیں
راحتِ دِید کی حاجت میں اُچھلتے جائیں
اُن کے کُوچے میں انا اپنی کُچلتے جائیں
دمِ آیات سے، ہم کُچھ نہ سنبھلتے جائیں
بلکہ انفاسِ مسیحائی سے جلتے جائیں
بے سروپا، کہ کوئی عِشق کی منزِل ہی نہیں
خود نتیجے پہ پہنچ جائیں گے،...
غزل
کارِ ہستی ہنوز سیکھتے ہیں
ہم نہیں وہ کہ غوز سیکھتے ہیں
کم ہُنر، وہ نہ روز سیکھتے ہیں!
گُر مصائب کے، دوز سیکھتے ہیں
کب کتابوں سے عِلم وہ حاصِل !
جو رویّوں سے روز سیکھتے ہیں
مرثیہ کیا کہیں گے وہ ،کہ ابھی
قبل کہنے کو، سوز سیکھتے ہیں
ہو کمال اُن کو خط نویسی پر
جو نَوِشتَن بہ لوز سیکھتے...
غزل
جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا
جا کے احباب میں ذرا نہ لگا
درگُزر اِس سے، دِل ذرا نہ لگا
کم نہیں، اب کی کُچھ ڈرانہ لگا
کچھ اُمیدیں تھیں جس سے وابستہ !
قد سے وہ بھی ذرا بڑا نہ لگا
تھے ہم مجبوریوں سے پا بستہ
بولیے دِل کی کیا لگا نہ لگا
دِل کے رِشتوں سے جورَہا منسُوب!
میرا ہوکر وہ بارہا...
فراقؔ گورکھپُوری
زمِیں بدلی، فلک بدلا، مذاقِ زِندگی بدلا
تمدّن کے قدِیم اقدار بدلے، آدمی بدلا
خُدا و اَہٗرمَن بدلے، وہ ایمانِ دُوئی بدلا
حدُودِ خیر و شر بدلے، مذاقِ کافرِی بدلا
نئے اِنسان کا جب، دَور ِخود نا آگہی بدلا
رمُوز ِبے خودی بدلے ، تقاضائے خودی بدلا
بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی، دُنیا...
غزل
شفیق خلشؔ
ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے
روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے
لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال
سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے
یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے
بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے
اگلی مانگی کا ہمیں...
غزل
کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو
مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو
سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو
ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو
مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت
خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو
یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ
فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو
کہاں...
جی ہاں الف عین صاحب!
بہت خُوب لکھنے والا،بہت اچھا انسان و شاعر آپ کا دوست
" گماں آبادکے بعد"
کا خالق 2016 میں دارِ مفارقت دے گیا
اللہ جنّتِ فردوس میں جگہ عطا کرے
آمین
۔
اُٹھاکے لے گیاداروغہِ فنا شاید
کُھلا ہُواہے درِ خاکداں کہاں گیا مّیں
نہ کررہا ہے فلاں کو فلاں خبر میری
نہ پُوچھتا ہے...
غزل
بات اور بے بات پر وہ آن و ایں کا شور ہے
ہر نہیں پہ ہاں کا ، ہر ہاں پر نہیں کا شور ہے
کھینچتا پھرتا ہُوں دُشمن پر خلا میں تیر کو
جب کہ وجہِ خوف، مارِ آستیں کا شور ہے
گھُومتی ہے سر پہ چرخی چرخِ نیلی فام کی
اور نیچے سانس میں اٹکا زمیں کا شور ہے
دسترس میں جن کی محمل تھا ہُوا محمل نصیب
کھو...
ماہرؔ القادری
غزل
حُسن کے ناز و ادا کی شرح فرماتا ہُوں میں
شعر کیا کہتا ہُوں ماہرؔ! پُھول برساتا ہُوں میں
تشنگی اِس حد پہ لے آئی ہے، شرماتا ہُوں میں
آج پہلی بار، ساقی! ہاتھ پھیلاتا ہُوں میں
شوق و مستی میں کہاں کا ضبط، کیسی احتیاط
اِن حدوں سے تو بہت آگے نِکل جاتا ہُوں میں
عاشقی سب سے بڑا ہے...
غزل
نِگاہِ بے زباں نے کیا اثر ڈالا برہمن پر
مِٹا ہے پیکرِ بے دست و پا کے، رنگ و روغن پر
رہا تا حشر احسانِ ندامت اپنی گردن پر
بجائے مے، ٹپکتا ہے زُلالِ اشک دامن پر
شرف بخشا دِلِ سوزاں نے مُجھ کو دوست دشمن پر
وہ دِل جِس کا ہر اِک ذرّہ ہے بھاری موم و آہن پر
نجانے پہلی منزِل برقِ سوزاں کی کہاں...