یہ غزل تلاش کررہا تھا تو معلوم ہوا کہ کاشفی یہ غزل پہلے ہی شیئر کرچکے ہیں۔۔ تھینکس فار شیئرنگ جناب! :)
غزل
(شاد عارفی - 1929)
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں اُنگلیاں اُس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
فریبِ تخیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں
حقیقتاَ میرا سر...
غزل
(سدرشن فاکر)
اگر ہم کہیں اور وہ مُسکرا دیں
ہم ان کے لیے زندگانی لُٹا دیں
ہر اک موڑ پر ہم غموں کو سزا دیں
چلو زندگی کو محبت بنا دیں
اگر خود کو بھولے تو کچھ بھی نہ بھولے
کہ چاہت میں ان کی خدا کو بھلا دیں
کبھی غم کی آندھی جنہیں چھو نہ پائے
وفاؤں کے ہم وہ نشیمن بنا دیں
قیامت کے دیوانے کہتے...