کتابوں میں رکھے ہوئے خواب
دیمک زدہ ہو گئے ہیں
زندگی کمپیوٹر کی چِپ میں کہیں کھو گئی ہے
اڑانوں کے نوچے ہوئے آسماں سے
چرائے ہوئے چاند تارے
مری خاک کی تجربہ گاہ میں
اب پڑے۔۔ ڈر رہے ہیں
زمیں اپنے جوتوں کی ایڑھی کے نیچے
انہیں نہ لگا دے کہیں
اجالوں کی رحمت بھری دھوپ چمگادڑوں کی
نظر میں ملا دی گئی ہے...