یہ منظر دیکھ کر آنکھیں ہماری ڈُبڈبائی ہیں
وہ لکھنا چاہتے ہیں ذہن میں باتیں جو آئی ہیں
جو اب دِل کہہ رہا ہے ہم اُسے تحریر کرتے ہیں
قلم کو تیغ کرتے ہیں زباں کو تیر کرتے ہیں
وہ بیٹے کثرتِ دولت سے جن کے جسم اینٹھے ہیں
جو اپنا فرض اپنی ذمہ داری بھول بیٹھے ہیں
سبھی اُن بے حِسوں کا بُرا انجام ہونا ہے...