ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیںظالم کی پشیمانی کو
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیںجو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے...