صحرا جی بہت شکریہ۔ بہت اچھی غزل شیئر کی ہے آپ نے۔
(تیسرے شعر میں رنجش کی جگہ ’رنجشیں‘ تو نہیں؟؟؟ یا رنجش اضافت کے ساتھ ہے۔ دیکھ لیں‘ مجھے بھی بتائیے گا) شکریہ
واہ واہ واہ! بہت شکریہ ظفری صاحب۔ خوبصورت غزل شیئر کرنے کے لیے
اور یہ بھی بتانے کے لیے کہ یہ کلیم عثمانی صاحب کی ہے۔
دراصل میں نے یہ غزل نورجہاں کی آواز میں سنی تھی۔ اور اس کا پہلا شعر میں اگثر گنگاتا ہوں۔
ایک بار پھر شکریہ!
بہت اچھی غزل شیئر کی ہے۔ محمود صاحب بہت شکریہ!
(آخری شعر پر ذہن متفق نہیںہوا کہ پہلے مصرعہ میں ’حیرتوں کا خدا‘ بناتا ہوں یعنی واحد تو دوسرے مصرعے میں ’خداؤں کو تلوار سے گراتا‘ یعنی جمع ہو گئے۔ اگر ’حیرتوں کے خدا‘ بناتا ہوں تو ٹھیک ہے۔)
ایک بار پھر شکریہ شیئر کرنے کے لیے۔
بہت خوب کلام شیئر کیا ہے جناب! بہت شکریہ
(یہ کیا آپ نے دو غزلیں اکٹھی کر دیں۔ علیحدہ کر دیتے تو اچھا تھا۔
اور میرا خیال ہے اس مصرعے میں ’ہے‘ زائد ہے۔ چیک کرکے درست کر دیں۔
’ہاتھ سے رُک سکاہے بہاؤ کبھی‘)
ایک بار پھر پوسٹ کرنے کا شکریہ!
جب سے میرے یار دشمن ہو گئے
یہ در و دیوار دشمن ہو گئے
ہو گئی خاموشیوں سے دوستی
صاحبِ گفتار دشمن ہو گئے
پھوٹ کر رونے لگا کِھلتا گلاب
ساتھ پل کر‘ خار دشمن ہو گئے
آخرت کی فکر کرنے والوں کے
یونہی دنیا دار دشمن ہو گئے
دیکھ کر خوشحال اک کم بخت کو
سب کے سب بیمار دشمن ہو گئے...