جبراً ہم اپنی کھال میں ہی بھر دیے گئے
اس پر ستم ہزار ہمیں سر دیے گئے
کیسے تھے لوگ جن کے اُفق بھر دیے گئے
اور ہم کو ساحلوں کے سمندر دیے گئے
آنکھیں جو گُھورتی تھیں سبھی نوچ لی گئیں
اُٹھتے ہوئے جو سر تھے قلم کر دیے گئے
بستے ، قلم ، کِتاب کہاں ہو سکے نصیب
بچوں کو کھیلنے کے لیے در دیے...