باتیں ہیں اہم میری اب ان پہ عمل داری کر لے
ہے وقت ترے پاس کچھ تو بھی تیاری کر لے
اپنی دنیا کو بنانا ہے اگر جنت تو نے
پھر تو حاکمِ دوراں سے وفا داری کر لے
سستے نرخ وزارت کے بڑے ٹھہرے ہیں
وقت کے ناقد کو حکومت کا حواری کر لے
چھوڑ روشن ضمیری کو اب تو فیض یاب ہوجا
لوٹا بن تو ڈیزل بن یا پھر تو شہاب ہو جا