رات کتنی مست ہے
شوق کیا جوان ہے
فرشِ گُل ہے زیرِ پا
سر پہ آسمان ہے
ہر نظر ہے التجا
ہر ادا زبان ہے
ابرووٴں میں گیت ہے
انکھڑیوں میں تان ہے
اک گِرہ اُدھیڑ د ے
گیسووٴں کے جال کو
چار سُو بکھیر کر
دیکھتی ہوں راستہ
نین پھیر پھیر کر
کاش لائے چاندنی
کوئی صید گھیر کر
دیکھ دیکھ ر ے سجن
اب نہ اتنی دیر کر
آ...