JavaScript is disabled. For a better experience, please enable JavaScript in your browser before proceeding.
You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser .
کوئی اعراب نہیں دکھ کا تِرے چاروں طرف
نہ کوئی پیش، زبر زیر نہ مَد ہے،۔ حد ہے
علی قیصر
ذرا سا ساتھ دو غم کے سفر میں
ذرا سا مسکرا دو، تھک گیا ہوں
لیاقت علی عاصم
غافل نہ جانیے مجھے، مصروفِ جنگ ہوں
اس چُپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی
لیاقت علی عاصم
دُور تک ساتھ چلا ایک سگِ آوارہ
آج تنہائی کی اوقات پہ رونا آیا
لیاقت علی عاصم
مجھے مناؤ نہیں،۔۔ میرا مسئلہ سمجھو
خفا نہیں، میں پریشان ہوں زمانے سے
لیاقت علی عاصم
عدو تھے حلقۂ یاراں میں مثلِ مُوئے سپید
جو ہم نے ایک نکالا تو دس نکل آئے
لیاقت علی عاصم
جس كو دیكھو وہ جدائی سے ڈراتا ہے مجھے
اِس محبت میں كوئی دوسرا ڈر ہے كہ نہیں
لیاقت علی عاصم
آج کل میرے تصرف میں نہیں ہے، لیکن
زندگی شہر میں ہو گی کہیں دو چار کے پاس
لیاقت علی عاصم
تری ہر بات سن لی میں نے
اب میں سچ سننا چاہتا ہوں
کاظم علی
مانا تِرے دیار میں ملتی ہے ہر دوا، مگر
میرے طبیب مان جا، میرا علاج اور ہے
کاظم علی
٭آج عہدِ مرگِ محبت کو "عہدے مرگے محبت" لکھا دیکھ کر ایک دو ہتھڑ اپنے ہی سر پہ رسید کرنا پڑا، اردو کا ایسا قتلِ عام پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
زیرک
کیفیت نامہ
اکتوبر 4، 2019
باپ گھراں دی راکھی کردے بن کےخود رکھوالے
قدر پچھانن باپ دی جہڑے لوگ نصیباں والے
روز مشقت کر کے بھاویں پین ہتھاں تے چھالے
لباں تے ہاسے رکھ کے پیؤ بچیاں نوں پالے
زخم کھا کھا کے ہوا یہ بھی تجربہ ہم کو
حد سے بڑھ جائے تو پھر درد سکوں دیتا ہے
میں کچھ دن سے اچانک پھر اکیلا پڑ گیا ہوں
نئے موسم میں، اک وحشت پرانی کاٹتی ہے
ہمیں بھی عافیتِ جاں کا ہے خیال بہت
ہمیں بھی حلقۂ نا مُعتبر میں رکھا جائے
سرد موسم سے کون ڈرتا ہے
سرد لہجوں سے جان جاتی ہے
مسافر ہوں خطائیں بھی ہوئیں ہیں مجھ سے
تم ترازو میں مِرے پاؤں کے چھالے رکھنا
راستے میں آ رہے ہیں جو ندی نالے، نہ دیکھ
منزلوں کی چاہ ہے تو پاؤں کے چھالے نہ دیکھ
اب کے اگر ارادۂ کُن ہو تو اے خدا
نائب فرشتہ کیجیو دنیا کے واسطے
عاطف جاوید عاطف
پچھلی تعبیر کے چھالے ہیں ابھی پیروں میں
پھر نیا خواب سرہانے سے نکل آتا ہے
عاطف جاوید عاطف