وہ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے مے خانوں میں
رقص میں مے بھی رہا کرتی تھی پیمانوں میں
درد غیروں کا بھی محسوس ہوا کرتا تھا
خوف باقی تھا خدا کا ابھی انسانوں میں
کھولنا بھول گیا ہے، یہ ستم کیسے ہوا؟
خون تو اب بھی رواں ہے وہی شریانوں میں
درد و غم چھوڑ کے جب جلوتیں کچھ دے نہ سکیں
اس سے بہتر...
مٹھی مٹھی کڑی ایں توں، مٹھا مٹھا بول نی
سجے کدی کھبے ایویں پھردی نہ ڈول نی
گڈی مری اُڈ دی سی، ڈور اودی کپ کے
نظراں بچاندا جانی جاپ کئی جپ کے
ملنے میں آیا تینوں، کوٹھے تن ٹپ کے
گنڈاں پیاں پیار وچ، بے جا اج کھول نی
مٹھی مٹھی کڑی ایں توں، مٹھا مٹھا بول نی
ماں نے پواڑا پایا، گچی مری نپ کے...
مٹھی مٹھی کڑی ہیں توں، مٹھا مٹھا بول نی
سجے کدی کھبے ایویں پھردی نہ ڈول نی
گڈی مری اُڈ دی سی، ڈور اودی کپ کے
نظراں بچاندا جانی جاپ کئی جپ کے
ملنے میں آیا تینوں، کوٹھے تن ٹپ کے
گنڈاں پیاں پیار وچ، بے جا اج کھول نی
مٹھی مٹھی کڑی ہیں توں، مٹھا مٹھا بول نی
ماں نے پھواڑا پایا، گچی مری نپ...
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
یہ میرا خیال ہے جی، باقی اساتذہ کا انتظار کرتے ہین
خاکسار
آطہر
وہ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے مے خانوں میں
مے بھی رقصاں سی رہا کرتی تھی پیمانوں میں
درد غیروں کا بھی محسوس ہوا کرتا تھا
خوف باقی تھا خدا کا ابھی انسانوں میں
وقت نے آنچ کی حدت کو گھٹایا ہو گا
خون تو اب بھی رواں ہے وہی شریانوں میں
شہر کے شہر جو ویران بنے جاتے ہیں
آبلہ پائی ہو پھر کس لئے ویرانوں...
اُستاد محترم،
شعر تبدیل کر دیا ہے، اب ملاحظہ کیجیے
دعا گو
وہ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے مے خانوں میں
مے بھی رقصاں سی رہا کرتی تھی پیمانوں میں
درد غیروں کا بھی محسوس ہوا کرتا تھا
خوف باقی تھا خدا کا ابھی انسانوں میں
وقت نے آنچ کی حدت کو گھٹایا ہو گا
خون تو اب بھی رواں ہے وہی شریانوں میں
شہر کے...
بہت شکریہ ، اُستاد محترم،
شعر میں لکھنا یہ چاہا تھا کہ تُم اگر نہ ملتیں اب بحی تو اوسان خطا ہو جاتے، پحر بحی اگر آپ کا ھکم ہو تو تبدیل کر دوں گا
خاکسار
اظہر
وہ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے مے خانوں میں
مے بھی رقصاں سی رہا کرتی تھی پیمانوں میں
درد غیروں کا بھی محسوس ہوا کرتا تھا
خوف باقی تھا خدا کا ابھی انسانوں میں
سرد موسم بھی نہیں ہے، تو ہے یہ کیوں بارد
خون تو اب بھی رواں ہے وہی شریانوں میں
تُم نہ ملتے تو یہ شائد کہ خطا ہو جاتے
کچھ ہی باقی...
رنگ، خوشبو، جمال کے ہونگے
سارے قصے وصال کے ہونگے
حسن تو بےمثال ہی ہو گا
اور چرچے خصال کے ہونگے
گیت گائیں گی چوڑیاں کھن کھن
پھر وہ غمزے کمال کے ہوں گے
اور طبیعت مچل ہی جائے گی
جبکہ عارض گلال کے ہونگے
وحشتیں پھر عروج پر ہوں گی
خوف لاحق زوال کے ہونگے
ہم نے کیا کیا جواب سوچے ہیں...
خسُ خاشاک جہاں پر تھے وہیں پھول گیا
مدتوں یاد رہا، پھر وہ مجھے بھول گیا
کوئی کتنا بھی عزیز ہو وہ ایک مدت تک تو ہمیں یاد رہتا ہے، مگر وقت بڑے سے بڑا زخم جیسے کہ بھر دیتا ہے ویسا ہی لوگ آہستہ آہستہ بھول جاتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جہاں جھاڑ جھنکار پڑے رہتے، پھول بھی وہیں چلے جاتے ایک خاص...
خسُ خاشاک جہاں پر تھے وہیں پھول گیا
مدتوں یاد رہا، پھر وہ مجھے بھول گیا
گرد بڑھتی ہی رہی، جس کا نہ ادراک ہوا
وقت جزبات پہ چھڑکاتا ہوا دھول گیا
ایک ہی دن کے ہوئے یار وہ بیمار بہت
سب ضروری جو سمجھتے تھے وہ معمول گیا
قد برابر جو پڑی بجلی تو پھر چین کہاں
جس پہ نازاں وہ رہے، سارا وہیں...