سر آپ کی رہنمائی کے مطابق یوں بدل دیا ہے، ایک اضافی مطلع کے ساتھ
ان کے لہجے میں جو رچاؤ ہے
کیا کہیں ہم سے کیا لگاؤ ہے
آنکھ پرنم، دلوں پہ گھاؤ ہے
کیوں زمانے میں بھید بھاؤ ہے
یہ نگر کھوکھلا ہے اندر سے
ظاہری سب یہ رکھ رکھاؤ ہے
ٹوٹ جائے نہ ایک دن یہ ڈور
اتنا سانسوں میں کیوں تناؤ ہے
یہ جو اک بے...