نتائج تلاش

  1. نوید صادق

    میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

    میں اجنبی سہی-سید آلِ احمد یہ اور بات کہ تکلیف اِس سفر میں ہے تمام لُطف‘ محبت کی رہ گزر میں ہے تمام عالمِ امکاں کو صَرفِ ہُو کر دے وہ اک شعور‘ وہ افسوں تری نظر میں ہے تمام عمر‘ جسے ڈھونڈتے ہوئے گزری سکونِ صبح کی صورت وہ میرے گھر میں ہے وہ سنگِ زرد کو چاہے تو سرخرو کر دے یہ ایک خوبی...
  2. نوید صادق

    میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

    میں اجنبی سہی-سید آلِ احمد مری نظر نے خلا میں دراڑ ڈالی ہے سکوں کی گم شدہ تصویر پھر سے پا لی ہے خود اپنی اَور بچھائے ہیں غم کے اَنگارے سکوتِ رنج سے میں نے نجات پا لی ہے کدھر کو جائیں‘ کہاں ہم کریں تلاش کہ اب سکوں کی دُھن میں بہت خاک چھان ڈالی ہے میں کس یقیں پہ تحمل کو پائیدار کروں...
  3. نوید صادق

    میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

    میں اجنبی سہی-سید آلِ احمد بدن کو غسلِ گدازِ حیات دے دے گا ترا خلوص مجھے اب کے مات دے دے گا یہ جڑتے ٹوٹتے کاذب مراسموں کا دیار مرے یقیں کی صداقت کا سات دے دے گا میں تھک گیا ہوں کڑی دھوپ کی مسافت سے کوئی سراب تبسم کی رات دے دے گا دُعا کو ہاتھ اُٹھاؤں تو کس طرح معبود جو میں کہوں تو...
  4. نوید صادق

    میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

    میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں زندہ ہوں مگر یاد کے پتھر کی طرح ہوں آثار ہوں اب کہنہ روایاتِ وفا کا اک گونج ہوں اور گنبد بے در کی طرح ہوں اک عمر دلِ لالہ رُخاں پر رہا حاکم اب یادِ مہ و سال کے پیکر کی طرح ہوں کس کرب سے تخلیق کا در بند کیا ہے مت پوچھ کہ صحرا میں بھرے گھر کی طرح...
  5. نوید صادق

    میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

    اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں بتا اے موجۂ گرداب! یہ تماشا کیوں مجھے پتہ ہے ترے دل کی دھڑکنوں میں ہوں میں ورنہ دُکھ کی کڑی دوپہر میں جلتا کیوں رہِ طلب میں مسلسل تھکن سے خائف ہوں سکوں جو ہاتھ نہ آئے سفر ہو لمبا کیوں یہ امتحاں تو...
  6. نوید صادق

    دل کے موضوع پر اشعار!

    دل لگانے کے تو اٹھائے مزے جی بلا سے رہا، رہا نہ رہا شاعر: مومن
  7. نوید صادق

    خورشید رضوی خورشید رضوی کی ایک غزل

    میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ نہیں ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے پہنچ رہی ہے وہاں تک مری صدا کہ نہیں زباں پہ کچھ نہ سہی، سن کے میرا حالِ تباہ ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات مگر وہ تیری نگاہوں کی...
  8. نوید صادق

    ایک جگنو مری وحشت کا سبب ہوتا تھا

    غزل ایک جگنو مری وحشت کا سبب ہوتا تھا شام کے وقت مرا حال عجب ہوتا تھا اک ستارہ تھا کہ روشن تھا رہِ امکاں میں اک سمندر، مرے ادراک میں جب ہوتا تھا میری وحشت مرے ہونے کے حوالے سے نہ تھی میرا ہونا میری وحشت کا سبب ہوتا تھا ایک خوشبو تھی کہ آغوش کشا تھی ہر وقت ایک لہجہ تھا کہ تحسین...
  9. نوید صادق

    جدا

    کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میر کیا جانے اُنھیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے شاعر: میر
  10. نوید صادق

    ملاقات

    آخر کے یہ سلوک ہم اب تیرے دیکھ کر کرتے ہیں یاد پہلی ملاقات کے تئیں شاعر: میر تقی میر
  11. نوید صادق

    خواب

    اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا زندگی کاہے کو ہے، خواب ہے دیوانے کا شاعر: فانی
  12. نوید صادق

    غزل

    میر اس غزل کو خوب کہا تھا ضمیر نے پر اے زباں دراز بہت ہوچکی خموش شاعر: میر تقی میر
  13. نوید صادق

    تنہا

    مجنوں کا دل ہوں محملِ لیلیٰ سے ہوں جدا تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالۂ جرس شاعر: میر تقی میر
  14. نوید صادق

    “ وفا “

    بارہا گور دل جھکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا شاعر: میر تقی میر
  15. نوید صادق

    ‘زلف‘

    ہو رہا ہے جہان میں اندھیر زلف کی پھر سرشتہ داری ہے شاعر: غالب
  16. نوید صادق

    “دوست“ بھائی کے نام :)

    اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہوگا شاعر: میر تقی میر
  17. نوید صادق

    بس

    بہت سعی کریے تو مر رہیے میر بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے شاعر: میر تقی میر
  18. نوید صادق

    پانی

    خاک تھی موج زن جہاں میں اور ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے شاعر:میر تقی میر
  19. نوید صادق

    اشعار - حروف تہجی کے لحاظ سے

    ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گُل کے بُو گئی کچھ دماغ میں گُل کے شاعر: میر تقی میر
  20. نوید صادق

    دریا

    ہر اک مژگاں پہ میرے اشک کے قطرے جھمکتے ہیں تماشا مفتِ خوباں ہے لبِ دریا چراغاں ہے شاعر: میر تقی میر
Top