حُسنِ نِسوانی ہے بجلی تیری فِطرت کے لیے !
پھر عجب یہ ہے کہ، تیرا عِشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین ِتفنّن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جَبِیں فرسا بھی ہے
ہے حَسِینوں میں وَفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلوّن کیش! تو مشہوُر بھی ، رُسوا بھی ہے...
ہر چند! ہر ایک شے میں تُو ہے
پر تجھ سی تو، کوئی شے نہیں ہے
ہاں، کھائیو مَت فریبِ ہستی!
ہر چند کہَیں کہ ہے، نہیں ہے
ہستی ہے، نہ کُچھ عَدم ہے غاؔلب!
آخر تُو کیا ہے؟، اے نہیں ہے
مرزا اسداللہ خاں غالؔب
تِرے جوشِ حیرتِ حُسن کا اثر اِس قدر ہے یہاں ہُوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پَری میں جلوہ گری رہی
چَلی سمتِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن ظہُور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دِل کہَیں، سو ہَری رہی
سِراج اورنگ آبادی
اُدھر جلوۂ مُضطرب، توبہ توبہ !
اِدھر، یہ دِلِ بے قرار اللہ اللہ
وہ لب ہیں، کہ ہے وجد میں موجِ کوثر
وہ زُلفیں ہیں یا خُلدِ زار، اللہ اللہ
امِیر خُسرو
( ترجمہ صُوفی تبسّم )
امیر خُسرو کی فارسی غزل کا منظُوم ترجمہ
یہ رنگینئِ نو بہار اللہ اللہ
یہ جامِ مَئے خوشگوار اللہ اللہ
اُدھر ہیں نظر میں نظارے چَمن کے
اِدھر رُو بَرُو رُوئے یار اللہ اللہ
اُدھر جلوۂ مُضطرب، توبہ توبہ
اِدھر یہ دِلِ بے قرار اللہ اللہ
وہ لب ہیں، کہ ہے وجد میں موجِ کوثر
وہ زُلفیں...
امیر خُسرو کی فارسی غزل کا ترجمہ
غمِ فُرقت میں جو جینےکا سماں ہو تو جیوں
یعنی ،اِک جان کے بعد اور بھی جاں ہو تو جیوں
تیری آنکھیں مجھے جینے نہیں دیتیں اِک پَل
شوخ غمزوں سےتِرے مجھ کو اماں ہو تو جیوں
بے یقینی کا یہ عالَم ہو ، تو جینا کیسا
ایک پَل بھی، مجھے جینے کا گُماں ہو تو جیوں
یُوں تو...
غزل
شفیق خلؔش
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں
قُربِ محبُوباں میں اپنی نارَسائی کے سبب
گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں
گو قرار آئے نہ میرے دِل کو اُن سے رُوٹھ کر
جب کہ مِلنے سے اِسی پر زخم کھا آیا ہُوں میں
بے سبب اُن سے...
غزل
یہ مجھ سے کِس طرح کی ضد دل ِ برباد کرتا ہے
میں جِس کو بُھولنا چاہُوں ، اُسی کو یاد کرتا ہے
قفس میں جِس کے بازُو شل ہُوئے رزقِ اَسیری سے
وہی صیدِ زبُوں صیّاد کو صیّاد کرتا ہے
طریقے ظُلم کے صیّاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا ، اُسے آزاد کرتا ہے
اُفق سے دیکھ کر رعنائیاں ہم خاک...