بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجُمن کئے
اے کاش پھر سے لوٹیں نہ تنہائیاں وہی
جاتی ہیں عادتیں کہیں پُختہ رہیں خلؔش!
چاہے نہ کب یہ دل، کہ ہو نادانیاں وہی
قوّت کہاں ہے دِل میں سہے پھر سے اب، خلؔش !
آئیں جو لوٹ کر مِری ناکامیاں وہی
شفیق خلؔش
غزل
رات ہم نے بھی یُوں خوشی کر لی
دِل جَلا کر ہی روشنی کر لی
آ تے جا تے ر ہا کر و صاحب!
آنے جانے میں کیوں کمی کر لی
کانٹے دامن تو تھام لیتے ہیں
کیسے پُھولوں سے دوستی کر لی
ہم نے اِک تیری دوستی کے لئے
ساری دُنیا سے دُشمنی کر لی
تیری آنکھوں کی گہری جِھیلوں میں
غرق ہم نے یہ زندگی کر لی
ہم نے...
دوسرے شعر میں آلودہ کی ہ ٹائپ ہونے سے رہ گئی ہے ۔
تیسرے شعر ( خودکلامی ہے شاید) کے دوسرے مصرعے میں
کسرہ کی کمی سے معنوی اختلاف پیدا ہو رہا ہے
کو بھی اگر درست کردیں گے تو کیا بات ہے
غم سے ہے کیوں چمن ِ لیل و نہار آلودہ
:):)
نگاہِ ناز میں دِ ل سوزئِ نیاز کہاں !
یہ آشنائےنظر ہیں دِلوں سے بیگانے
وہ دیکھتے ہیں تبسّؔم مِرے لبوں کی ہنسی
جو میرے دِل پہ گُزرتی ہے ، کوئی کیا جانے
:):)
مُجھے یہ آسماں ہے سر چُھپانے کے لیے کافی
در و دِیوار ہیں میرے، نہ کوئی بام رکھتا ہُوں
یہ کارِ عاشقی بھی، آ پڑا ہے یُونہی رستے میں !
وگرنہ مَیں تو اپنے کام ہی سے کام رکھتا ہُوں
ظفؔر اقبال
غزل
شفیق خلؔش
چراغِ دِل تو ہو روشن، رَسد لہُو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزُو ہی سہی '
کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں
نہیں جو پیارمقدّر، توجُستجُو ہی سہی
یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں !
وہ گل مِلے نہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی
عجیب بات ہے حاصِل وصال ہے نہ فِراق
جو تیرے...