دِلوں میں گردِ کُدُورَت، لَبوں پہ خاموشی
بڑے فساد کا ساماں سُکُوتِ شہر میں تھا
سِوائے کاہشِ ہستی، کسی نے کیا پایا
مِزاجِ یار کا پَرتو، مِزاجِ دہر میں تھا
وہ ہم ہی تھے ، کہ رہے ہر نظر میں بیگانے !
کوئی مزاج شناسا ، نہ سارے شہر میں تھا
خوشا وہ وقت، کہ منزِل قرِیب تھی، باؔقر
کہ اہلِ ذوق...