غزل
بڑھی جو حد سے تو سارے طلِسم توڑ گئی
وہ خوش دِلی ، جو دِلوں کو دِلوں سے جوڑ گئی
ابد کی راہ پہ بے خواب دھڑکنوں کی دھمک
جو سو گئے اُنھیں بُجھتے جگوں میں چھوڑ گئی
یہ زندگی کی لگن ہے، کہ رتجگوں کی ترنگ !
جو جاگتے تھے اُنہی کو یہ دھن جھنجوڑ گئی
وہ ایک ٹیس، جسے تیرا نام یاد رہا
کبھی کبھی...
کبھی کبھی مجھے اَن بُوجھی اُلجھنوں سے مِلا
جچی تُلی ہُوئی اِک سانس کا بھروسا بھی
کبھی کبھی اِنہی الھڑ ہَواؤں میں امؔجد
سُنا ہے دُور کے اِک دیس کا سندیسا بھی
مجید امؔجد
غزل
قُربان علی بیگ سالؔک
اِنتہا صبر آزمائی کی
ہے درازی شَبِ جُدائی کی
ہے بُرائی نصیب کی، کہ مجھے!
تم سے اُمِّید ہے بَھلائی کی
نقش ہے سنگِ آستاں پہ تِرے
داستاں اپنی جبہَ سائی کی
ہے فُغاں بعد امتحانِ فُغاں
پِھر شِکایت ہے نارَسائی کی
کیا نہ کرتا وصال شادی مرگ
تم نے کیوں مجھ سے بیوفائی کی
راز...
غزل
شفیق خلؔش
گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا
چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا
دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا
جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا
کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا
دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا
کہکشاں سی...
ہوش نِگہ لے چُکی، زُلف کی اب گھات ہے
دیکھیے آگے، ابھی پہلی مُلاقات ہے
کھینچ کے ابرو کے تیغ، کہتے ہو کُچھ ڈر نہیں!
میرا تو کانپے ہے دِل، آپ کی کیا بات ہے
نظؔیر اکبر آبادی
غزل
شفیق خلؔش
گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا
چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا
دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا
جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا
کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا
دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا...
دُزدِ حِنائے پا سے، ہُشیار رہیو، غافِل!
یہ لے نہ جائے تیرا کفشِ چکن چُرا کر
باندھا کریں ہیں کیا کیا ، اے مصحفؔی برشتے
مضمونِ تازہ میرے یہ ہم سُخن چُرا کے
غلام ہمدانی مصحفؔی
غزل
اعتبار ساؔجد
مِلیں پھر آکے اِسی موڑ پر، دُعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر، دُعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا، جو بھی نقشہ ہو!
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر، دُعا کرنا
چراغ جاں پہ ، اِس آندھی میں خیریت گُزرے
کوئی اُمید نہیں ہے، مگر دُعا کرنا
تمہارے بعد مِرے زخمِ نارَسائی کو
نہ ہو نصِیب کوئی...
مُسافتوں میں، نہ آزار جی کو لگ جائے!
مِزاج داں نہ مِلیں ہمسفر، دُعا کرنا
تمہارے بعد مِرے زخمِ نارَسائی کو
نہ ہو نصِیب کوئی چارہ گر ، دُعا کرنا
اعتبار ساؔجد
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو!
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر، دُعا کرنا
چراغ جاں پہ ، اِس آندھی میں خیریت گُزرے
کوئی اُمید نہیں ہے، مگر دُعا کرنا
اعتبار ساؔجد