میں دراصل یوں کرتی ہوں کہ جیسے ہی ذہن میں کوئی خیال آتا ہے یک سطری صورت میں ، معلوم کرتی ہوں کہ کس بحر میں ہے ۔ یا کس بحر کے قریب تر ہے ۔ اگر موزون ہوتا ہے تو اسی بحر میں دوسرا مصرع کہہ دیتی ہوں اگر موزون نہیں ہوتا تو قریب ترین بحر میں ڈھال کر دوسرا مصرع بھی اسی بحر میں کہہ دیتی ہوں ۔ میرے خیال...
یوں ہو سکتا تھا ،
"خون تھوکا گیا نہ شعر ہوا"
اس سے یہ مطلب نکلتا ہے ،
"یا تو خون تھوکا جانا چاہیے یا پھر شعر کہنا چاہیے مرض قلب کیلیے"
جبکہ یہ کہنا میری مراد نہیں ، میں یہ کہنا چاہتی ہوں ،
"خون تھوکا جانا چاہیے یا اسی خون کو شعر میں ڈھل جانا چاہیے ، خوں کو شعر ہوجانا چاہیے"
اب یہ شعر ایک بار پھر...
1) عذاب عشق کی خاطر مجھے چنا
کمال حسن نظر ہے جناب کا !
2)دن رات سرد آہیں ، ہر وقت اضطراب
بعد از فراق نوشی ! قصہ تمام شد
3)دشت پیما کو سبزہ زار اس لیے خوش آتا نہیں
کوئی گل دیکھے تو کوئی گل بدن یاد آ جاتا ہے
4)موت کو بھی مات دینے چلا میرا ہنر
وقت سے آگے نکل اے مری عمر رواں !
5)ہم چراغ ایسا...
سحر کی روشنی میں ہے تپش ناگن کے نینوں سی
مگر یہ رات ۔۔۔ !
یہ کالی رات , پھن پھیلائے , محو رقص ہے
کہیں کوئی کسی اک گمشدہ تصویر پر جب بین کرتا ہے
یہ اس کے بین کے ہر راگ پر
سبھی گر آزماتی ہے
تبھی تو من کو بھاتی ہے .
قطرہ قطرہ پگھلتی رہتی ہے
آنکھ بارش میں جلتی رہتی ہے
عین ممکن ہے آپ کو سوچیں
"دل کی دنیا بدلتی رہتی ہے"
روگ سورج کو کیا لگا ہے آج
شام تو روز ڈھلتی رہتی ہے
خون تھوکے نہ جب تلک کوئی
زندگی ہاتھ ملتی رہتی ہے
موم زندہ ہو جب تلک نوشی!
تب تلک آگ جلتی رہتی ہے ۔