وہم و گُماں سے علم و یقیں تک، سیکڑوں نازک موڑ آئے
روئے زمیں سے شمس و قمر تک، شمس و قمر سے آگے بھی
دل سے دعا نکلے تو یقیناً بابِ اثر تک پہنچے گی
آہ جو نکلے دل سے تو پہنچے، بابِ اثر سے آگے بھی
صوفی حنیف اخگر ملیح آبادی
مجھ میں انکی ثنا کا سلیقہ کہاں، وہ شہِ دو جہاں وہ کہاں میں کہاں
اُن کا مدحِ سرا خالقِ این و آں، وہ رسولِ زماں وہ کہاں میں کہاں
اُن کے دامن سے وابستہ میری نجات، اُن پہ قربان میری حیات و ممات
میں گنہگار وہ شافعِ عاصیاں، بے کسوں کی اماں وہ کہاں میں کہاں
میں سراپا عدم وہ سراپا وجوُد، اُن پہ ہر دم...