لاریب مرزا

محفلین
تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

(فیض احمد فیض)
 
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

یہ پورب ، یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا
میرا نےلگوں آسماں بے کرانہ

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیا نہ؟
 
وہم و گُماں سے علم و یقیں تک، سیکڑوں نازک موڑ آئے
روئے زمیں سے شمس و قمر تک، شمس و قمر سے آگے بھی
دل سے دعا نکلے تو یقیناً بابِ اثر تک پہنچے گی
آہ جو نکلے دل سے تو پہنچے، بابِ اثر سے آگے بھی
صوفی حنیف اخگر ملیح آبادی
 
Top