ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے
یعنی تفہیم کی بستی میں سخن باقی ہے
گل تو مرجھا گئے عنوانِ چمن باقی ہے
اسکے بھیجے ہوئے تحفوں میں کفن باقی ہے
چھوڑ جاؤ گے تو جاؤ ہمیں حاجت بھی نہیں
ابھی دنیا میں پری خانہِ زن باقی ہے
سرحدِ تاشہِ تسکین تک آتی ہی نہیں
ایک خواہش جو میانِ تن و من باقی ہے
یہ...