نتائج تلاش

  1. محمدارتضیٰ آسی

    میاں سانس کے لئے دہن کی ضرورت ہوتی ہے

    میاں سانس کے لئے دہن کی ضرورت ہوتی ہے
  2. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے اصلاح "محبت حرّیت کا راستہ ہے"

    متشکرم الف عین صاحب مرا ہر اَنگ پتھر ہوگیا ہے کہ اس نے وار ہی ایسا کیا ہے اس شعر میں "وار" اگر نگاہوں کے اثر کے معنیٰ میں لیا جائے تو کیسا ہے؟ خوشی راس آئے تو آئے بھی کیونکر ہمیں دامن تراشیدہ ملا ہے تراشیدہ سے مراد تو وہی چاک کا معنیٰ تھا۔۔۔ اگر مطلب نہیں نکلتا تو کوئی جائے گزین مصرع...
  3. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے اصلاح "محبت حرّیت کا راستہ ہے"

    مرا ہر اَنگ پتھر ہوگیا ہے کہ اس نے وار ہی ایسا کیا ہے یہ شعر مطلع کی وضاحت ہے۔۔ یعنی تکالیف کا ایک درجہ بصورتِ انکار یا حقارت اس طرح اثر انداز ہوا کہ مصرع اولیٰ وجود میں آیا
  4. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے اصلاح "محبت حرّیت کا راستہ ہے"

    شجر جو سینچتا تھا خونِ دل سے وہی اب چھاؤں کو ترسا ہوا ہے مفہوم: جس نے محبت کو پروان چڑھایا یعنی کسی کو محبت کے جذبوں سے روشناس کرایا اصلا اس کا استحقاق کسی اور کا نصیب بن گیا
  5. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے اصلاح "محبت حرّیت کا راستہ ہے"

    فضا میں نور کیوں پھیلا ہوا ہے؟ یقیناً پھر کسی کا دل جلا ہے ہمارے اعتبار سے تو رواں ہے اگر آپ کو نہیں جچتا تو کوئی حسین مصرعہ عنایت کریں دِکھاتا ہے جو مستقبل کا نقشہ وہ آئینہ کہاں رکھا ہوا ہے؟ نقشہ بمعنیٰ اسرار و رموز ہے
  6. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے اصلاح "محبت حرّیت کا راستہ ہے"

    جناب بات کچھ یوں ہے کہ شاعر کہنا چاہتا ہے محبت وہ کیفیت ہے جس میں انسان آزاد فضا میں سانس لیتا ہے مگر یہاں پہنچنے کی خاطر اسے اک سفر طے کرنا ہے جو انتہائی کٹھن ہے جس میں ہر قدم پہ مصیبت، آزار، تشنگی، چبھن اور نجانے کتنی ہی تکالیف آپ کے خیر مقدم کو تیار ہیں
  7. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے اصلاح "محبت حرّیت کا راستہ ہے"

    محبت حرّیت کا راستہ ہے مگر یہ آگ میں دِہکا ہوا ہے فضا میں نور کیوں پھیلا ہوا ہے؟ یقیناً پھر کسی کا دل جلا ہے مرا ہر اَنگ پتھر ہوگیا ہے کہ اس نے وار ہی ایسا کیا ہے دِکھاتا ہے جو مستقبل کا نقشہ وہ آئینہ کہاں رکھا ہوا ہے؟ شجر جو سینچتا تھا خونِ دل سے وہی اب چھاؤں کو ترسا ہوا ہے رکو! وقتِ سحر...
  8. محمدارتضیٰ آسی

    تو پردہ چاک کردو ماہر تو ہو ہی

    تو پردہ چاک کردو ماہر تو ہو ہی
  9. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے تنقید و اصلاح "رات ہے اور خمار باقی ہے"

    رات ہے اور خمار باقی ہے شدّتِ انتظار باقی ہے بال اُلجھے ہوئے سے رہتے ہیں نشّہِ زلفِ یار باقی ہے "مرگئے ہیں خدا سبھی" لیکن خوئے شب زندہ دار باقی ہے مقتلِ عشق ہوگیا ویراں پھر بھی اک شہسوار باقی ہے آج کی رات روئے کافر پر اک انوکھا نکھار باقی ہے بزم، ساقی، شراب کچھ نہ رہا پھر بھی اک بادہ...
  10. محمدارتضیٰ آسی

    ورنہ کچھ اور بگڑ جاینگے

    ورنہ کچھ اور بگڑ جاینگے
  11. محمدارتضیٰ آسی

    رفتہ رفتہ سدھر ہی جاینگے

    رفتہ رفتہ سدھر ہی جاینگے
  12. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے تنقید و اصلاح "ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے"

    حجازِ محترم! بات یہ ہے کہ غزل کا وجود الفاظ کا محتاج ہے۔ البتہ معنی کا تعلق رشتوں سے ہے اور واقفیت شرط ہے باقی آپ استاد بھی اور قبلہ بھی
  13. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے تنقید و اصلاح "ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے"

    جناب۔ ہم نے (محن) بابِ افتعال سے استعمال کیا ہے آپ کی شنوائی سے شاید یہ الفاظ ٹکرائے ہوں (رنج و محن) اسی ضمن میں پرکھیں۔۔۔
  14. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے تنقید و اصلاح "ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے"

    الفاظ و تلفظ، ارتباط خیال و معنی اور معیارِ غزل کے اعتبار سے تنقید و اصلاح کا خواہاں ہوں
  15. محمدارتضیٰ آسی

    غزل برائے تنقید و اصلاح "ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے"

    ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے یعنی تفہیم کی بستی میں سخن باقی ہے گل تو مرجھا گئے عنوانِ چمن باقی ہے اسکے بھیجے ہوئے تحفوں میں کفن باقی ہے چھوڑ جاؤ گے تو جاؤ ہمیں حاجت بھی نہیں ابھی دنیا میں پری خانہِ زن باقی ہے سرحدِ تاشہِ تسکین تک آتی ہی نہیں ایک خواہش جو میانِ تن و من باقی ہے یہ...
  16. محمدارتضیٰ آسی

    ّ

    کچھ خطاؤں کے سبب یہ غزل نئی لڑی کے تور پہ دوبارہ پیش کرتا ہوں
  17. محمدارتضیٰ آسی

    ّ

    ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے یعنی تفہیم کی بستی میں سخن باقی ہے گل تو مرجھا گئے عنوانِ چمن باقی ہے اسکے بھیجے ہوئے تحفوں میں کفن باقی ہے چھوڑ جاؤ گے تو جاؤ ہمیں حاجت بھی نہیں ابھی دنیا میں پری خانہِ زن باقی ہے سرحدِ تاشہِ تسکین تک آتی ہی نہیں ایک خواہش جو میانِ تن و من باقی ہے یہ...
Top