دوستو میں اجڑتا رہا عمر بھر
تم کو لیکن میں آباد کرتا رہا
میں تمہارے جمالِ چمن کے لئے
اپنےگلشن کو برباد کرتا رہا
تم کو سایہ فراہم کیا دھوپ میں
خود سلگتا رہا ہوں شجر کی طرح
سچ تو یہ ہے کہ میں ہم قدم ہی رہا
ہر سفر میں غبارِ سفر کی طرح
مجھ کو جس دم تمہاری ضرورت پڑی
یوں ملے جیسے تم جانتے ہی...