خوب غزل ہے۔ میرا موقف بھی کاشف عمران بھائی والا ہے۔ اکثر باتوں میں متفق ہوں سوائے ایک آدھ بات کے۔ پہلی تو یہ کہ 'یوں' سے واؤ کا گرنا مجھے کوئی معیوب نہیں لگا۔
دوسرا یہ کہ قافیہ کا استعمال بہت ہی ماہرانہ انداز کا ہے۔
اس سلسلے میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی استاد کا ایک شعر دلیل میں اپنے پاس رکھ کر اسے استعمال کرلیں. اس میں کوئی پریشانی والی بات ہی نہیں ہے. لکھنؤ کے شعرا میں تو خاص یہ چیز پائی جاتی ہے کہ مؤنث کو بھی مزکر کر دیتے ہیں.
در اصل مسئلہ یوں ہے کہ شہرت اور ہمت صرف عوام کے لئے لکھنے والوں کو ملا کرتی ہے۔ وہ دور کیا تھا جب فن، فن تھا۔ عوام بھی بہر حال فن سے شناسا تھی۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
چاند پر اِک مے کدہ آباد ہونا چاہیے
یا محبت کو یہیں آزاد ہونا چاہیے
قاضیِ محشر! تری مرضی ، ہماری سوچ ہے
ظالموں کو دُنیا میں برباد ہونا چاہیے
روح کے بے رنگ افق پر، رات بھر گونجی ندا
دل پرندہ، فکر سے آزاد ہونا چاہئیے
خواہشِ جنت میں کرتے ہیں جو زاہد نیکیاں
نام اُن کا ’’متقی شداد‘‘ ہونا چاہیے...
میں بھی قائم ہی ہوں جناب۔ قوافی درست ہیں۔ اگر آپ کو غلط لگتے ہیں تو کوئی دلیل ہوگی۔ وہ دلیل ضرور جاننا چاہونگا۔ اورساتھ ہی اگر کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں تو پڑھ کر اپنی تصحیح کرنے میں کوئی عار نہیں۔ :)