وِصال
وُہ نہیں تھی تو دِل اک شہرِ وفا تھا،جس میں
اُس کے ہونٹوں کے تصور سے تپش آتی تھی
اُس کے اِنکار پہ بھی پُھول کِھلے رہتے تھے
اُس کے انفاس سے بھی شمع جلی جاتی تھی
دِن اِس اُمید پہ کٹتا تھا کہ دِن ڈھلتے ہی
اُس نے کُچھ دیر کو مِل لینے کی مُہلت دی ہے
اُنگلیاں برق زدہ رہتی تھیں ، جیسے اُس نے...