غضب کيا تيرے وعدے کا اعتبار کيا
تمام رات قيامت کا انتظار کيا
کسي طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کيا
مري وفا نے مجھے خوب شرمسار کيا
وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال انديش
انہوں نے وعدہ کيا اس نے اعتبار کيا
نہ اس کے دل سے مٹايا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پريشاں مرا غبار کيا
تري نگاہ کے...
کعبے کي سمت جا کے مرا دھيان پھر گيا
اس بت کو ديکھتے ہي بس ايمان پھر گيا
محشر میں داد خواہ جو اے دل نہ تو ہوا
تو جان لے يہ باتھ سے ميرا پھر گيا
چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ ميرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گيا
رونق جو آ گئي پسينے سے موت کے
پاني ترے مريض پر اک آن پھر گيا...
روز کے آنے والے گلیاں بھٹک جاتے ہیں تو نیا قاری کیا تلاش کرے گا؟
میں سمجھا تھا شاید صرف میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب بھی اس کے شکار ہیں۔ اب تو کوئی ایسا حل ہو کہ سائٹ یوزر فرینڈلی(محبِ استعمال کنندہ) ہو جائے۔
بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہيں
ہم بھي ديکھيں تو اسے ديکھ کے کيا کہتے ہيں
ہم تصور ميں بھي جو بات ذرا کہتے ہيں
سب ميں اڑ جاتي ہے ظالم اسے کيا کہتے ہیں
جو بھلے ہيں وہ بروں کو بھي بھلا کہتے ہيں
نہ برا سنتے ہيں اچھے نہ برا کہتے ہيں
وقت ملنے کا جو پوچھا تو کہا کہہ ديں گے
غير کا حال...
ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھا
نہ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھا
نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ...
شاکر جب ناشر سے بات کی جائے حقوق کی تو سب سے پہلے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے عزائم کیا ہیں۔ کہیں تجارتی مقاصد کے لیے تو نہیں لے رہے۔ پھر اگلا سوال آتا ہے کہ جناب اس کی کیا ضمانت ہے کہ کتاب آپ کی سائٹ پر رہیگی۔ ایک دفعہ آن لائن آئی تو ایک کلک کا مسلہ ہے پھر تو کوئی بھی اٹھا تا پھرے۔ مارکیٹ میں...
تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا
يا نبي خوب ہوا خوب ہوا خوب ہوا
شب معراج يہ کہتے تھے فرشتے باہم
سخن طالب و مطلوب ہوا خوب ہوا
حشر ميں امت عاصي کا ٹھکانا ہي نہ تھا
بخشوانا تجھے مر غوب ہوا خوب ہوا
تھا سبھي پيش نظر معرکہ کرب و بلا
صبر ميں ثاني ايوب ہوا خوب ہوا
داغ ہے روز قيامت مري شرم...
نواب مرزا خان داغ (1831ء۔۔۔۔۔1905ء)
پورا نام نواب مرزا خان اور تخلص داغ ہے۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابھی چھ سال کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خان کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادرشاہ ظفر کے بیٹےمرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلیٰ میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر...
ٹک آنکھ ملاتے ہي کيا کام ہمارا
تس پر يہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا
تم نے تو نہيں، خير يہ فرمائيے بارے
پھر کن نے ليا ، راحت و آرام ہمارا
ميں نے جو کہا آئيے مجھ پاس تو بولے
کيوں، کس لئے ، کس واسطے کيا کام ہمارا؟
رکھتے ہيں کہيں پاؤں تو پڑے ہيں کہيں اور
ساقي تو ذرا ہاتھ تو لےتھام ہمارا...
پيدا ھوا جي وشق سے جب سنگ ميں کيڑا
پھر کيوں نہ پڑے زخم دل تنگ ميں کيڑا
عکس لب جاں بخش سے جوں بير بہيٹي
پھرتا ہے پڑا ايک قدح بنگ ميں کيڑا
کيٹرے کے پر انگيا ميں لگا رادہکا بولي
ہے کشن يہ کاٹے گا مرے انگ ميں کيڑا
منہ چنگي نے فنکاري کي يہ لي جھجک کے
کيڑے ني کہا ہے ترے منہ چنگ ميں کيڑا...
سودا زندہ ہے تو يہ تدبير کريں گے
اس زلف گرہ گير کي زنجير کريں گے
غصے ميں ترے ہم نے بڑا لطف اٹھايا
اب تو عمداً اور بھي تفصير کريں گے
ديکھيں گے جب آتے تھے آپ ايک ادا سے
ہو چيں بہ تکيہ بہ شمشير کريں گے
يہ نالہ جاں کاہ پر از حسرت و درد آہ
تا بند ترے دل ميں نہ تاثير کريں گے
چمکا ہے...
نرگس نے پھر نہ ديکھا جو آنکھ اٹھا چمن ميں
کيا جانے کس ني کس سے کيا کرليا چمن ميں
چڑھ بيٹھا ياسمين کي گردن پہ عشق پيچا
آيا کدہر سے کافر يہ تسمہ پا چمن ميں
نالے پہ ميرے نالے کرنے لگي ہے اب تو
بلبل نے يہ نکالا نخرا نيا چمن ميں
تکليف سير گلشن ، اے ہم صفير مت دے
اس گل بغير ميرا کب دل...
مستي ہي تيري آنکھوں کي ہے جام سے لذيذ
ہے ورنہ کون شے مئے گل فام سے لذيذ
چٹکارے کيوں بھرے نہ زباں تيرے ذکر ميں
کوئي مزہ نہيں ہے ترے نام سے لذيذ
گالي وہ اس کي ہوہو کي آنکھيں دکھاتے وقت
ہے واقعي کہ پستہ و بادام سے لذيذ
انشا کو لذت اس کي جواني کي حسن کي
ھے زور طِفلگي کے بھي ايام سے...
کام فرمائيے کس طرح سے دانائي کو
لگ گئي آگ ياں صبر و شکيبائي کو
عشق کہتا ہے يہ وحشت سے جنوں کے حق ميں
چھيڑ مت بختوں جلے ميرے بڑے بھائي کو
کيا خدائي ہے منڈانے لگے اب خط وہ لوگ
ديکھ کر ڈيوڑھي ميں چھپ رہتے تھے جونائي کو
وعدہ کرتا ہے غزالانِ حرم کے آگے
کس نے يہ بات سکھائي ترے سودائي کو...
دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا
ياں تلک روئے کہ سر دکھنے لگا
دور تھي از بسکہ راہ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ ياں
تجھ بِن اے نور بصر دُکھنے لگا
درد يہ ہے ہاتھ اگر رکھا ادہر
واں سے تب سرکا ہاتھ دُکھنے لگا
مت کراہ انشا نہ کر افشائے راز
دل دُکھنے دے...
دھوم اتني ترے ديوانے مچا سکتے ہيں
کہ ابھي عرش کو چاہيں تو ہلاسکتے ہيں
مجھ سے اغيار کوئي آنکھ ملاسکتے ہیں؟
منہ تو ديکھو وہ مرے سامنے آسکتے ہيں؟
ياں و آتش نفساں ہيں کہ بھريں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھي لگا سکتے ہيں
سوچئے توسہي، ھٹ دہرمي نہ کيجئے صاحب
چٹکيوں ميں مجھے کب آپ اڑا سکتے...
سید انشاء اللہ خان انشاء (1756ء 1817ء)
سید انشاء اللہ خان انشاء میر ماشااللہ خان کے بیٹے تھے۔ جو ایک ماہر طبیب تھے۔ ان کے بزرگ نجف اشرف کے رہنے والے تھے۔ مغلیہ عہد میں ہندوستان تشریف لائے۔ کئی پشتیں بادشاہوں کی رکاب میں گزارنے کے بعد جب مغل حکومت کو زوال آیا تو ماشاء اللہ خان دہلی چھوڑ کر...
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائيے
بندہ پرور جائيے اچھا خفا ہو جائيے
ميرے عذر جرم پر مطلق نہ کيجئے التفات
بلکہ پہلے سے بھي بڑہ کر کج ادا ھوجائے
خاطر محرام کو کر ديجئے محو الم
درپے ايذائے جان مبتلا ھوجائيے
راہ ميں مليے کبھي مجہ سے تو از راھ ستم
ھونٹ کاٹ کر فورا جدا ھو جائيے
گر نگاہ...
روشن جمال يار سے ہے انجمن تمام
دھکا ھوا ھے آتش گل سے چمن تمام
حيرت غرور حسن سے شوخي سے اضطراب
دل نے بھي تيرے سيکھ لئے ھيں چلن تمام
اللہ ري جسم يار کي خوبي کہ خود بخود
رنگينيوں ميں ڈوب گيا پير ھن تمام
دل خون ھو چکا ھے جگر ھو چکا ھے خاک
باقي ھوں مين بھي کرائے تيغ زن تمام
ديکہو تو...
رنگ لايا ھے ہجوم ساغر و پيمانہ آج
بھر گئيں سيرابيوں سے محفل رندانہ آج
بچکہ زيب محفل ھے وھ جلوھ جانانہ آج
ھے سراپا آرزو ھر عاشق ديوانہ آج
يہ ھوا بے تابيوں پر نشہمے کا اثر
کہہ ديا سب ان سے حال شوق گستاخانہ آج
رشک سے مٹ مٹ گئے ھم تشنہ کا مان وصال
جب ملا لب ھائے ساقي سے لب پيمانہ آج...