جہاں تک ہم ان کو بہلاتے رہےہيں
وھ کچھ او ربھي ياد آتے رہے ہيں
انہيں حال دل ھم سناتے رھے ھيں
وھ خاموش زلفيں بناتے رھے ھيں
محبت کي تاريکي ياس ميں بھي
چرغ ھوس جہلملاتے رھے ھيں
جفا کار کہتے رھےھيں جنہيں ھم
انہيں کي طرف پھر بھي جاتے رھےھيں
وھ سوتے رھے ھيں الگ ھم سے جب تک
مسلسل ھم...
ہم عاشق فاسق تھےہم صوفي صافي ہيں
پي ليں جو کہيں اب بھي در خور معافي ہيں
بيگار بھي ململ بھي گرمي ميں شب فرقت
کام آئيں گے جاڑے ميں فرديں جو لحافي ھيں
عقلوں کو بنا دے گا، ديوانہ جمال ان کا
چھا جائيں گي ھوشوں پر آنکہيں وھ غلافي ھيں
ھم شکر ستم کرتے، کيوں شکوھ کيا ان سے
آئين محبت کےشيوے...
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا ياد ھے
ھم کو اب تک عاشقي کا وہ زمانہ ياد ھے
با ھزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتياق
تجہ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا ياد ھے
بار بار اٹھنا اسي جانب نگاھ شوق
اور ترا غصے سے وھ آنکہيں لڑانا ياد ھے
تجہ سے کچہ ملتے ھي وھ بے باک ھو جانے مرا
اور ترا دانتوں ميں وھ...
اور تو پاس مرے ہجر ميں کيا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو ميں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ھم نے ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں ميں بسارکھے ہيں
شوق کو اور بھي ديوانہ بنا رکھا ہے
سخت بے درد ہے تاثير محبت کہ انہيں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے...
ديکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
يہ دھواں سا کہا سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کي ہے يہ فلک
شعلہ اک صبح ياں سے اٹھتا ہے
خانہ دل سے زينہار نہ جا
کوئي ايسے مکاں سے اٹھتا ہے
نالہ سر کھينجتا ہے جب مير
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے
لڑتي ہے اس کي چشم شوخ جہاں
ايک آشوب وہاں سے اٹھتا ہے
آگے...
فقيرانہ آئے صدا کر چلے
مياں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جينے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپني تقدير ہي ميں نہ تھي
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
وہ کيا چيز ہے آہ جس کے لئے
ہر اک چيز سے دل اٹھا کر چلے
کوئي نا ميدانہ کرنے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھي چھپا کر چلے...
ہم ہوئے تم ہوئے کہ مير ہوئے
اس کي زلفوں کے سب اسير ہوئے
جن کي خاطر کي استخوان شکني
سو ہم ان کے نشان تير ہوئے
نہيں آتے کسو کي آنکھوں ميں
ہو کے عاشق بہت حقير ہوئے
آگے يہ بے ادائياں کب تھيں
ان دنوں تم بہت شرير ہوئے
اپنے روتے ہي روتے صحرا کے
گوشے گوشے ميں آب گير ہوئے
ايسي ہستي...
ہمارے آگے ترا جب کسي نے نام ليا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام ليا
قسم جو کھائيے تو حائج زليخا کي
عزيز مصر کا بھي صاحب اک غلام ليا
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے ميخانے
نگاہ مست نے ساقي کا انتظام کيا
وہ کنج روش نہ ملا راستوں ميں مجھ سے کبھي
نہ سيدھي طرح سے ان نے مرا سلام ليا
مزا دکھا...
لب ترے لعل عناب ہيں دونوں
پر تمامي عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئيے کب تک
پھوٹنے ہي کے باب ہيں دونوں
ہے تکليف نقاب دے رخسار
کيا چھپيں آفتا ہيں دونوں
تن کے معمورہ ميں يہي دل و چشم
گھر تھے دو، سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہيں دونوں
سو جگہ اس...
لوگ بہت پوچھا کرتے ہيں کيا کہئے مياں کيا ہے عشق
کچھ کہتے ہيں سر الہي کچھ کہتے ہين خدا ہے عشق
عشق کي شان اکثر ہے ارفع ليکن شانيں عجائب ہيں
گہہ ساري ہے دماغ و دل ميں گا ہے سب سے جدا ہے عشق
کام ہے مشکل الفت کرنا اس گلشن کے نہالون سے
بو کش ہو کر سيب ذقن کا عش نہ کرے تو سزا ہے عشق
الفت...
الٹي ہوگئيں سب تدبيريں کچھ نہ دوا نے کام کيا
ديکھا اس بيماري دل نے آخر کام تمام کيا
عہد جواني رو رو کاٹا پير ميں ليں آنکھيں موند
يعني رات بہت تھے جاگے صبح ہوئي آرام کيا
حرف نہيں جاں بخشي ميں اس کي خوابي اپني قسمت کي
ہم سے جو پہلے کہ بھيجا سو مرنے کا پيغام کيا
ناحق ہم مجبوروں پر يہ...
ياروں مجھے معاف رکھو ميں نشے ميں ہوں
اب دو تو جام خالي ہي دو ميں نشے ميں ہوں
ايک ايک فرط دور میں يوں ہي مجھے بھي دو
جام شراب پر نہ کرو ميں نشے ميں ہوں
مستي سے درہمي ہے مري گفتگو کے بيچ
جو چاہو تم بھي مجھ کو کہو ميں نشے ميں ہوں
بھاگي نماز جمعہ تو جاتي نہيں ھے کچھ
چلتا ہوں ميں بھي ٹک...
مہر کي تجھ سے توقع تھي ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
جتنے جي آہ ترے کوچے سے کوئي نہ پھرا
جو ستم ديدہ رہا جا کے سومر کر نکلا
دل کي آبادي کي اس حد ہے خرابي کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشک تر قطرہ خون، لخت جگر ہجراں نے
اس دفينے ميں سے اقسام جواہر...
اے دوست کوئي مجھ سا رسوا نہ ہوا گا
دشمن کے بھي دشمن پر ايسا نہ ہوا گا
ٹک گور غريباں کي کر سير کہ دنيا ميں
ان ظلم رسيدوں پر کيا کيا نہ ہوا گا
اس منہ خرابے ميں آبادي نہ کر منعم
اک شہر نہيں ياں جو صحرا نہ ہوا گا
آنکھوں سے تري ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنيا ميں برپا نہ ہوا ہو گا
کيا پوچھو ہو کيا کيا کہئيے مياں دل نے بھي کيا کام کيا
عشق کيا ناکام رہا آخر کو کام تمام کيا
عجر کيا سو اس مفسد نے قدر ہماري يہ کچھ کي
تيوري چڑھائي غصہ کيا جب ہم نے جھک سلام کيا
کہنے کي بھي لکھنے کي بھي ہم تو قسم کھا بيٹھے تھے
آخر دل کي بيتابي سے خط بھيجا پيغام کيا
عشق کي تہمت جب نہ...
وہ جو پي کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا
محتسب ميکدہ سےجاتا نہيں
يہاں سے ہو کر خراب نکلے گا
يہي چپ ہے تو درد دل کہتے
مونہہ سے کيونکر جواب نکلے گا
جب اٹھے گا جہان سے يہ نقاب
تب ہئ اس کا حجاب نکلے گا
عرق اسکے بھي مونہہ کا بوکيجو
گر کبھو يہ گلاب نکلے گا۔۔۔
آئو باليں تک نہ...
غم رہا تک کہ دم رہا
دم کے جانے کا نہايت غم رہا
حسن تھا تيرا بہت عالم فريب
خط کے آنے پر بھي اک عالم رہا
دل نہ پہنچا گوشہ داماں تلک
قطرہ خون تھا مثرہ پر جسم رہا
جامہ احرام زاھد پر نہ جا
تھا زم ميں ليکن نا محرم رہا
ميرے رو کي حقيقت جس ميں تھي
ايک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صبح پيري...
کئي دن سلوک دواع کا، مرے درپے دل راز تھا
کبھو درد تھا، کبھو، داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو دار تھا
دم صبح بزم خوش جہاں، شب غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دور تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا
دل خستہ جو لہو ہوگيا، تو بھلا ہوا کہ کہ کہاں تک
کبھو، سوزينہ سے داغ تھا، کبھو درد غم سے فگار...