نتائج تلاش

  1. رضوان

    خدائے سخن میر تقی میر

    جس سر کو غرور آج ہےياں تاج وري کا کل اس پر يہيں شور ہے پھر نوحہ گري کا شرمندہ ترے رخ ہے رخسار پري کا چلتا نہيں کچھ آگے ترے کبک وري کا آفاق کي منزل سے گيا کون سلامت اسباب لٹا راہ ميں ياں سر سفري کا زنداں ميں بھي شورش نہ گئي اپنے جنوں کي اب سنگ مداوا ہے اس آتنتہ سري کا اپني تو جہاں...
  2. رضوان

    خدائے سخن میر تقی میر

    جو متعقد نہيں ہے علي کے کمال کا ہر بال اس کے تن پہ ہے موجب وبال کا عزتعلي کي قدر علي کي بہت ہے دور مورو ہے ذولجلال کے عز و جلال کا پايا علي کو جاکے محمد نے اس جگہ جس جا نہ تھا لگائو گمان و خیال کا رکھنا قدم پہ اس کے قدم کب ملک سے ہو مخلوق آدمي نہ ہوا ايسي چال کا شخصيت ايسي کس کي...
  3. رضوان

    خدائے سخن میر تقی میر

    ہے حرف خاصہ دل زرہ حسن قبول کا يعني خيال سر ميں نعت رسول کا رہ پيروي ميں اس کي کہ گام نحست ميں ظاہر اثر ہے مقصد دل کے وصول کا وہ مقتدائے خلق جہاں اب نہيں ہوا پہلے ہي تھا امام نفس و عقول کا سرمہ کيا ہے وضع پے چشم اہل قدس احمد کي رہ گزار کي خاک اور دھول کا ہے متحد نبي و علي و وصي...
  4. رضوان

    خدائے سخن میر تقی میر

    میر تقی میر (1137ھ وفات 20 ستمبر 1810ء) میر غالبا واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔ حالانکہ اب رنگ تغزل اور معیار غزل وہ نہیں جو دو صدی قبل تھا مگر آج بھی میر اپنے بھولے بھالے...
  5. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    ھو ھجر مدتوں جو وصل ايک دم نصيب کم ھو گا کوئي مجھ سا محبت ميں کم نصيب ھوں ميري خاک کو جو تمھارے قدم نصيب کھايا کريں نصيب کي جو ميرے قسم نصيب بہتر ھيں لاکھ لطف وکرم سے ترے ستم اپنے زھے نصيب کہھوں يہ ستم نصيب ماھي ھوا يا ھو مادھ وھ دے ايک يا ھزار بيداغ ھوں نہ دست فلک سے درم نصيب ھے...
  6. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    کيا مد نظر ہے ياروں سے تو کہے گرمنہ سے نہيں کہتے اشاروں سے تو کہے حال دل بےتاب کہا جائے تو ھم سے گر کہئيے نہ لاکہوں سے ھزاروں سے تو کہے کچھ سوز دل اپنا دل سوز کے آگے فرصت ھو تو تپ غم کے حرارون سےتو کہے موقف ھے گر دل کا شکار آن داد پر تو پہلے کچھ ان مير شکاروں سے تو کہے اس گوھر...
  7. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    مذکورہ تري بزم ميں کس کا نہيں آتا پر ذکر ھمارا نہيں آتا نہيں آتا جينا ھميں اصلا نظر اپنا نہيں آتا گر آج بھي وھ رشک مسيحا نہيں آتا کيا جانے اسے وھم ھے کيا ميرے طرف سے جو خواب ميں بھي رات کو نہيں آتا بيجا ھے ولا اس کے نہآنے کي شکايت کيا کيجئے گا فرمائيے اچھا نہيں آتا کس دن نہيں...
  8. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    ان سے کچھ وصل کا ذکر اب نہيں لانا اچھا وہ جو کچھ کہيں تو تم بھي کہو جانا اچھا تم نے دشمن ھے جو اپنا ھميں جانا اچھا يار نادان س تو ھے دشمن دانا اچھا پہول گل مھندي کے لالا نہ ہاتہوں ميں ملو خون عاشق نہيں مرقد پہ بہانا اچھا طائر جاں کے سوا کوچہ جاناں کي طرف نامہ بر کون ھے جو کيجئے روانہ اچھا...
  9. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    جان کے جي ميں سدا جينے کا ارمان ھي رھا دل کو بھي ديکھ کيے ھہ بھي پريشان ھي رھا بعد مرون بھي خيال چشم فتاں ھي رھا سبزھ تربت مرا وقف گلستان ھي رھا ميں ھميشہ عاشق پيچيدہ موباں ھي رھا خاک پر روئيدہ ميرے عشق پيچاں ھي رھا پستہ قدمي ھے کام غير ميں وھ لعل لب پر مرےحق ميں تو سنگ زير دنداں ھي رھا...
  10. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    اب تو گھبرا کے يہ کہتے ھيں کہ مرجائيں گے مر کے بھي چين نہ پايا تو کدہر جائيں گے تم نے ٹھرائي اگر غير کے گہر جانے کي تو ارادے يہاں کچھ اور ٹھر جائيں گے خالي اے چارھ گر ھوں گے بہت مرھم داں پر مرے زخم نہيں ايسے کہ بہر جائيں گے پہنچيں گے رھ گزر يار تلک کيوں کر ھم پہلے جب تک دو عالم سے...
  11. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    آنکھ اس پر جفا سے لڑتي ھے جان کشتي قضا سے لڑتي ھے شعلہ بھڑکے گے کيا بہلا سر بزم شمع تجہ بن ھوا سے لڑتي ھے قسمت اس بت سے جا لڑي اپنبي ديکھو احمق خدا سے لڑتي ھے صف مثرگان تري خدا کي پناھ اک بلا ايک بلا سے لڑتي ھے شور و غل قل يہ کيوں ھے دختر رز کيا کسي آشنا سے لڑتي ھے نگہ...
  12. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    معلوم جو ھوتا ھميں انجام محبت ليتے نہ کبھي بھول کے ھم نام محبت ھيں داغ محبت درم و دام محبت مثردھ روز اڑا ديتا ھے وھ کرکے تصديق ھر روز اڑا ديتا ھے وھ کرکے تصديق دو چار اسير قفس دام محبت مانند کباب آگے پہ گرتے ھيں ھميشہ دل سوز ترے بستر آرام محبت کاسہ ميں فلک کے نہ رھے نام کو زھر...
  13. رضوان

    محمد ابراہیم ذوق

    محمد ابراہیم ذوق (1789ء۔۔۔۔۔1854ء) ذوق کا اصل نام محمد ابراہیم تھا اور ذوق تخلص کرتے تھے۔ غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ دلی میں پیدا ہوئے۔اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی ادبی...
  14. رضوان

    مومن خان مومن

    دکھاتے آئينہ ہو اور مجھ ميں جان نہيں کہو گے پھر بھي کہ ميں تجھ سا بد گمان نہيں ترے فراق ميں آرام ايک آن ہيں يہ ہم سمجھ چکے گر تو نہيں تو جان نہيں نہ پوچھو کچھ مرا احوال مري جاں مجھ سے يہ ديکھ لو کہ مجھے طاقت بيان نہيں يہ گل ہيں داغ جگر کے انہيںں سمجھ کر چھيڑ يہ باغ سينہ عاشك...
  15. رضوان

    مومن خان مومن

    دل ميں اس شوخ کے جو راہ نہ کي ہم نے بھي جان دي پر آہ نہ کي تھا بہت شوق وصل تو نے تو کمي اے حسن تاب کاہ نہ کي ميں بھي کچھ خوش نہيں وفا کر کے تم نے اچھا کيا نباہ نہ کي محتسب يہ ستم غريبوں پر کبھي تنبيہ بادشاہ نہ کي گريہ و آہ بے اثر دونوں کس نے کشتي مري تباہ نہ کي تھا مقدر ميں...
  16. رضوان

    مومن خان مومن

    ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط اس مبحث صحيح کي تکرار ہے غلط کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ ہر چند وصل غير کا انکار ہے غلط کر تے ہيں مجھ سے دعوي الفت وہ کيا کريں کيونکر کہيں مقولہ اغيار ہے غلط يہ گرم جوشياں تري گو دل سے ہوں ولے تاثير نالہ ہائے شرر بار ہے غلط کرتے ہو مجھ سے راز...
  17. رضوان

    مومن خان مومن

    جلتا ہوں ہجر شاہد و ياد شراب ميں شوق ثواب نے مجھے ڈال عذاب ميں کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام آباد ايک گھر ہے جہاں خراب ميں بد نام ميرے گر يہ رسوا سے ہو چکے اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں ناکاميوں سے کامک...
  18. رضوان

    مومن خان مومن

    ميں نے تم کو دل ديا، تم نے مجھے رسوا کيا ميں نے تم سے کي کيا، اور تم نے مجھے سے کيا کيا کشتہ ناز بتاں روز ازل سے ہوں مجھے جان کھونے کے لئے اللہ نے پيدا کيا روز کہتا تھا کہيں مرتا نہيں ہم مر گئے اب تو خوش ہو بے وفا تيرا ہي لے کہنا گيا سر سے شعلے اٹھتے ہيں آنکھوں سے دريا جاري ہے شمع...
  19. رضوان

    مومن خان مومن

    نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي کتين ہي طاقت آزمائي کي رشک دشمن بہانہ تھا سچ ہے ميں نے ہي تم سے بے وفائي کي کيوں برا کہتے ہو بھلا نا صح مين نے حضرت سے کيا برائي کي دام عاشق ہے دل دہي نہ ستم دل کو چھينا تو دل رہائي کي گر نہ بگڑو تو کيا بگڑتا ہے مجھ ميں طاقت نہيں لڑائي کي گھر تو اس...
  20. رضوان

    مومن خان مومن

    قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق سچ تو يہ ہے بري بلا ہے عشق اثر غم ذرا بتا دينا وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق آفت جاں ہے کوئي پردہ نشيں مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق کس ملاحت سرشت کو چاہا تلخ کامي پہ با مزا ہے عشق ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني دل رہا حسن و جاں رہا عشق ديکھ حالت مري کہيں...
Top