کہتی ہے کچھ تو اُس کی حیا غور سے سنو
'طوفاں کی آرہی ہے صدا غور سے سنو'
آنکھوں سے، ابروئوں سے، تبسم سے، زلف سے
ہوگا بیاں نئے سے نیا غور سے سنو
لازم ہیں کچھ تو ایسی محبت میں زخم بھی
ڈھارس بندھا رہی ہے وفا غور سے سنو
آہٹ بتا رہی ہے کہیں وہ قریب ہیں
ممکن ہے دل تو رُک کے ذرا غور سے سنو
صحرا...