تیرے اُن اُلفتوں کے زمانے کِدھر گئے
کیا جانیے کہاں ہیں، نجانے کِدھر گئے
ہے مُدّتوں سے خانۂ زنجیر بے صدا
معلوم ہی نہیں کہ دِوانے کِدھر گئے
مرزا محمد رفیع سوداؔ
ہمیشہ، ساتھ رہا ہے اِس آب و آتش کا !
کبھی نہ برق کا دامن سحاب سے چھُوٹا
نصیب میں ہو جو چکّر، تو کوئی چھُٹتا ہے
یہ رات دن نہ مہ و آفتاب سے چھُوٹا
داغؔ دہلوی