You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
مِرے لہُو کو مِری خاکِ ناگزیر کو دیکھ
یونہی سلِیقۂ عرضِ ہُنر نہیں آیا
پروفیسر سحر انصاری
-
میں وہ مُسافرِ دشتِ غمِ محبّت ہُوں
جو گھر پُہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا
پروفیسر سحر انصاری
-
کبھی یہ زعم کہ خود آ گیا تو مِل لیں گے!
کبھی یہ فِکر، کہ وہ کیوں اِدھر نہیں آیا
پروفیسر سحر انصاری
-
تجھ سے واقف جو نہ ہوں، اُن کو ہو باور وعدہ
تیری قسموں کی عوض، ہم تو قسم رکھتے ہیں
رفیع سودا
-
دُور تک کوئی سِتارہ ہے، نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں
ساغر صدیقی
-
دونوں عالم پہ سرفرازی کا
ناز ہے تیرے پائمالوں کو
ساغر صدیقی
-
دِل کی گُنگ سرشاری اُس کو جِیت لے، لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہوجائے
پروین شاکر
-
ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک اِنساں کے !
ساری زندگانی ہی، بے ثبات ہوجائے
پروین شاکر
-
ذرہ ذرہ آئینہ تھا خود نُمائی کا فرؔاق
سر بسر صحرائے عالم جلوہ زارِ یار تھا
فرؔاق گورکھپوری
-
ایک ادا سے بے نیازِ قرب و دُوری کردیا
ماروائے وصل و ہجراں حُسن کا اقرار تھا
فراؔق گورکھپوری
-
طوُر تھا، کعبہ تھا ، دِل تھا، جلوہ زارِ یار تھا
عِشق سب کچھ تھا مگر پھر عالمِ اسرار تھا
فراؔق گورکھپوری
-
جُدا ہوئے ہیں بہت لوگ، ایک تم بھی سہی
اب اِتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
ناؔصر کاظمی
-
جُدا ہوئے ہیں بہت لوگ، ایک تم بھی سہی
اب اِتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
بہت خوب انتخاب !
تشکر شیئر کرنے پر
:)
-
یُوں ہی ہوتے نہیں خُدائے سُخن
مؔیر کا میر پن کبھو نہ گیا
باقؔر زیدی
-
مُنحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے
مرزا اسداللہ خاں غالؔب
-
بکھرا ہُوا ہُوں صر صرِ شامِ فراق سے
اب آ بھی جاؤ ، اور مجھے آ کر سمیٹ لو
جون ایلیا
-
دل نے کیا ہے قصدِ سفر، گھر سمیٹ لو
جانا ہے اِس دیار سے ، منظر سمیٹ لو
جون ایلیا
-
اب کے مل کر دیکھیے کیا رنگ ہو
پھر ہماری جستجُو ہونے لگی
داغ دہلوی
-
حُسن اور عِشق کو دے طعنۂ بیداد مجاز
تم کو تو صِرف اِسی بات پہ مر جانا تھا
مجاز لکھنوی
-
یہ تو کیا کہیے، چلا تھا میں کہاں سے ہمدم !
مجھ کو یہ بھی نہ تھا معلوُم کِدھر جانا تھا
مجاز لکھنوی